مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 925
وَعَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ کُنْتُ اَعْرِفُ انْقِضَآءَ صَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِالتَّکْبِےْرِ ۔(صحیح البخاری و صحیح مسلم)
نماز کے اختتام پر اللہ اکبر کہنا
حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں رحمت عالم ﷺ کی نماز کے ختم ہونے کو آپ ﷺ کے اللہ اکبر کہنے سے پہچان لیتا تھا۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)

تشریح
نماز کے اختتام پر اللہ اکبر کہنے کی مراد کے تعین میں شارحین کے مختلف اقوال ہیں، چناچہ بعض حضرات فرماتے ہیں کہ یہاں تکبیر یعنی اللہ اکبر کہنے سے مراد ذکر ہے جیسا کہ صحیحین میں عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت منقول ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ مبارک میں فرض نماز سے فراغت کے وقت لوگوں کے لئے بآواز بلند ذکر مقرر تھا۔ پھر حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں، کہ میں نماز کے اختتام کو اسی کے ذریعہ پہچانتا تھا (یعنی جب لوگ بلند آواز سے ذکر کرتے تھے تو میں جان لیتا تھا کہ نماز ہوچکی ہے)۔ عبداللہ ابن عباس ؓ کی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد محمد بن اسماعیل البخاری نے پھر عبداللہ ابن عباس ؓ کی اس روایت کو نقل کیا ہے جو یہاں ذکر کی گئی ہے لہٰذا اس سے معلوم ہوا کہ تکبیر سے مراد مطلق ذکر ہے۔ لیکن اتنی بات بھی سمجھتے چلئے کہ حضرت امام شافعی (رح) نے رسول اللہ ﷺ کے اس ذکر بالجہر کو تعلیم امت پر محمول کیا ہے چناچہ بیہقی وغیرہ نے آہستہ آواز سے ذکر کرنے پر صحیحین کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کو اس بات کا حکم دیا کرتے تھے کہ وہ تہلیل و تکبیر بلند آواز سے نہ کریں۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم بہرے اور غائب کو نہیں پکار رہے ہو، وہ (یعنی خدا) تو تمہارے ساتھ ہے اور قریب ہے بعض حضرات نے کہا ہے کہ یہاں تکبیر سے مراد وہ تکبیر ہے جو نماز کے بعد تسبیح وتحمید کے ساتھ دس مرتبہ یا تیس مرتبہ پڑھتے ہیں۔ کچھ محققین کی رائے ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں نماز کے بعد ایک بار یا تین بار تکبیر کہی جاتی تھی۔ بعض علماء کا قول ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کی روایت کا تعلق ایام منیٰ سے ہے کہ وہاں تشریق کی تکبیرات کہتے تھے، بہر حال۔ ان تمام اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے بھی سب سے بڑا اشکال حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ کے اس قول پر یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ کیا وجہ ہے کہ عبداللہ ابن عباس ؓ سلام سے تو نماز کے اختتام کو نہ جانتے تھے اور تکبیر سے جانتے تھے کہ نماز ہوچکی ہے؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ حضرت عبداللہ ابن عباس ؓ اس وقت صغیر السن تھے اس لئے ممکن ہے کہ وہ ہمیشہ جماعت میں شریک نہ ہوتے ہوں گے، یا پھر یہ احتمال ہے کہ وہ جماعت میں شریک تو ہوتے ہوں گے لیکن پچھلی صف میں کھڑے ہوتے ہوں گے اس لئے وہاں تک رسول اللہ ﷺ کی آواز نہ پہنچنے کے سبب وہ سلام پر نماز کے اختتام کو نہ پہچانتے ہوں گے بلکہ جب مقتدی بآواز بلند تکبیر کہتے ہوں گے تو وہ یہ جان لیتے ہوں گے کہ نماز ختم ہوگئی ہے۔ وا اللہ اعلم۔
Top