مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 930
وَعَنْ سَعْدٍص اَنَّہُ کَانَ ےُعَلِّمُ بَنِےْہِ ھٰؤُلَاءِ الْکَلِمٰتِ وَےَقُوْلُ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ ےَتَعَوَّذُ بِھِنَّ دُبُرَ الصَّلٰوۃِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْےَا وَعَذَابِ الْقَبْرِ۔ (صحیح البخاری)
نماز کے بعد کن چیزوں سے پناہ مانگنی چاہئے
اور حضرت سعد ؓ کے بارے میں مروی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو کلمات دعائیہ کے یہ الفاظ سکھاتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ رحمت عالم ﷺ اپنی نماز کے بعد انہیں الفاظ کے ذریعے پناہ مانگا کرتے تھے۔ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُبِکَ مِنَ الْجُبْنِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنَ الْبُخْلِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ اَرْذَلِ الْعُمُرِ وَاَعُوْذُبِکَ مِنْ فِتْنَۃِ الدُّنْیا و عَذَابِ الْقَبْرِ (رواہ البخاری)

تشریح
یہاں جبن سے مراد طاعت کی جرات نہ کرنا ہے اور بخل سے مراد یہ ہے کہ کسی غیر کو مال علم اور خیر خواہی سے فائد نہ پہنچایا جائے۔ ناکارہ عمر کا مطلب یہ ہے کہ انسان زندگی کے اس اسٹیج پر پہنچ جائے جہاں عقل میں خلل آجاتا ہے اعضا ضعیف ہوجاتے ہیں طاقت و قوت یکسر جواب دے دیتی ہے اور ایسا آدمی بالکل اپاہج و معذور ہو کر دین و دنیا کے کاموں کے لئے ناکارہ بن جاتا ہے۔ اسی عمر سے پناہ مانگنی چاہیے۔ کیونکہ انسانی زندگی کا حاصل اور مقصود تو صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول رہا جائے اس کی نعمتوں کا اچھی طرح شکر ادا کیا جاتا رہے اور ظاہر کہ اسی ناکارہ عمر میں کوئی آدمی نہ پوری طرح عبادت کرسکتا ہے اور نہ اداء شکر میں مشغول رہ سکتا ہے۔ اس طرح زندگی اور عمر کا جو اصل مقصد ہے وہ فوت ہوجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس ناکارہ زندگی سے بچائے
Top