مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 944
عَنْ مُعَاوِےَۃَ بْنِ الْحَکَمِ رضی اللہ عنہ قَالَ بَےْنَا اَنَا اُصَلِّیْ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاعَطَسَ رَجُلٌ مِّنَ الْقَوْمِ فَقُلْتُ ےَرْحَمُکَ اللّٰہُ فَرَمَانِی الْقَوْمُ بِاَبْصَارِھِمْ فَقُلْتُ وَاثُکْلَ اُمِّےَاہُ مَا شَانُکُمْ تَنْظُرُوْنَ اِلَیَّ فَجَعَلُوْا ےَضْرِبُوْنَ بِاَےْدِےْھِمْ عَلٰی اَفْخَاذِھِمْ فَلَمَّا رَاَےْتُھُمْ ےُصَمِّتُوْنَنِیْ لٰکِنِّیْ سَکَتُّ فَلَمَّا صَلّٰی رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَبِاَبِیْ ھُوَ وَاُمِّیْ مَا رَاَےْتُ مُعَلِّمًا قَبْلَہُ وَلَا بَعْدَہُ اَحْسَنَ تَعْلِےْمًا مِنْہُ فَوَاللّٰہِ مَاکَہَرَنِیْ وَلَا ضَرَبَنِیْ وَلَا شَتَمَنِیْ قَالَ اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃَ لَاےَصْلُحُ فِےْھَا شَیْءٌ مِّنْ کَلَامِ النَّاسِ اِنَّمَا ھِیَ التَّسْبِےْحُ وَالتَّکْبِےْرُ وَقِرَآءَ ۃُ الْقُرْآنِ اَوْ کَمَا قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قُلْتُ ےَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ حَدِےْثُ عَھْدٍ بِجَاھِلِےَّۃٍ وَقَدْ جَآءَ نَا اللّٰہُ بِالْاِسْلَامِ وَاِنَّ مِنَّا رِجَالًا ےَّاتُوْنَ الْکُھَّانَ قَالَ فَلاَ تَاْتِھِمْ قُلْتُ وَمِنَّا رِجَالٌ ےَّتَطَےَّرُوْنَ قَالَ ذَاکَ شَیْءٌ ےَّجِدُوْنَہُ فِیْ صُدُوِْرِھِمْ فَلَا ےَصُدَّنَّھُمْ قَالَ قُلْتُ وَمِنَّا رِجَالٌ ےَخُطُّوْنَ قَالَ کَانَ نَبِیٌّ مِّنْ الْاَنْبِےَآءِ ےَخُطُّ فَمَنْ وَّافَقَ خَطُّہُ فَذَاکَ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ )
نماز میں چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا مفسد نماز ہے
حضرت معاویہ ابن حکم ؓ فرماتے ہیں کہ (ایک روز) سرور کونین ﷺ کے ہمراہ میں نماز پڑھ رہا تھا کہ (درمیان نماز) اچانک جماعت میں سے ایک آدمی کو چھینک آگئی میں نے (جواب میں) یرحمک اللہ کہا (یہ سن کر) لوگوں نے مجھ کو گھورنا شروع کیا ( کہ نماز میں چھینک کا جواب دیتے ہو) میں نے کہا کہ تمہاری ماں تمہیں گم کر دے تم لوگ مجھے کیوں گھور رہے ہو لوگوں نے (میری گفتگو سن کر مجھے چپ کرانے اور اظہار تعجب کے لئے) اپنی رانوں پر اپنے ہاتھ مارنے شروع کئے (جب) میں نے دیکھا کہ لوگ مجھے خاموش کرانا چاہتے ہیں (تو مجھے بہت غصہ آیا کیونکہ مجھے اس فعل کی برائی کا علم نہ تھا) لیکن میں خاموش رہا جب رسول اللہ ﷺ نماز پڑھا چکے ( تو کیا کہوں) میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان میں نے تو ایسا اچھا تعلیم دینے والا نہ آپ ﷺ سے پہلے دیکھا تھا اور نہ بعد میں دیکھا اللہ کی قسم! نہ تو آپ ﷺ نے مجھے ڈانٹا، نہ مارا اور نہ برا بھلا کہا، (ہاں اتنا) فرمایا کہ نماز میں انسان کی بات مناسب نہیں ہے، نماز تو تسبیح و تکبیر اور قرآن پڑھنے کا نام ہے یا آپ نے اس کی مانند کچھ اور فرمایا (یعنی راوی کو شک ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہی الفاظ فرمائے تھے یا اس کے مانند دوسرے الفاظ تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ میں ایک نو مسلم ہوں (ابھی تک دین کے تمام احکام مجھے معلوم نہیں تھے ہاں (اب) اللہ نے ہمیں اسلام کی دولت سے مشرف فرمایا ہے، (تو دین کے تمام احکام سیکھ لوں گا پھر میں نے عرض کیا کہ) ہم میں سے بہت لوگ کاہنوں کے پاس جاتے ہیں (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ ) فرمایا تم ان کے پاس ہرگز نہ جایا کرو میں نے عرض کیا ہم میں سے بہت لوگ بد فالی (بھی) لیتے ہیں۔ فرمایا یہ ایک ایسی چیز ہے جسے وہ اپنے دلوں میں پاتے ہیں (یعنی یہ ان کا محض وہم اور ذہن کی اختراع ہے جو کاموں کے نفع و نقصان میں کوئی اثر نہیں رکھتا) انہیں اپنے کام سے رکنا نہیں چاہئے معاویہ ؓ فرماتے ہیں میں نے پھر عرض کیا ہم میں سے بعض لوگ خط کھینچتے ہیں اور اس کے ذریعے وہ غیب کی کچھ باتیں بتاتے ہیں) فرمایا انبیاء میں سے ایک نبی تھے جو خط کھینچتے تھے لہٰذا جس آدمی کا خط کھینچنا اس نبی کے خط کھینچتے کے موافق ہو وہ اس بات کو حاصل کرلیتا ہے۔ (صحیح مسلم) مؤلف مشکوٰۃ فرماتے ہیں کہ حدیث کے الفاظ لٰکِنِّیْ سَکَتُ کو صحیح مسلم اور کتاب حمیدی میں اسی طرح دیکھا ہے (البتہ) صاحب جامع الاصول نے لفظ لکنی کے اوپر لفظ کذا) لکھ کر اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے۔

تشریح
و اثکل امیاہ (یعنی تمہاری ماں تمہیں گم کرے) ان الفاظ کی تشریح پہلے بھی کسی موقع پر کی جا چکی ہے چناچہ وہاں بتایا جا چکا ہے کہ اہل عرب کے ہاں یہ الفاظ ایسے موقع پر استعمال کئے جاتے تھے کہ مخاطب کی کوئی بات یا اس کا کوئی فعل قابل تعجب ہوتا تھا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں چھینکنے والے نے الحمد اللہ کہا ہوگا اس کے جواب میں حضرت معاویہ ؓ نے یرحمک اللہ کہا۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز میں چھینک کے جواب میں یرحمک اللہ کہنا حرام ہے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اب اشکال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب حضرت معاویہ ؓ نے ایک مفسد نماز فعل کا ارتکاب کیا تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں نماز لوٹانے کا حکم کیوں نہیں دیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ وہ نو مسلم تھے اسلام قبول کئے ہوئے انہیں زیادہ دن نہیں گذرے تھے اس لئے انہیں معلوم نہیں ہوسکا تھا کہ نماز میں گفتگو کرنا منسوخ ہوچکا ہے اب گفتگو کرنے سے نماز باطل ہوجاتا ہے اس لئے آپ ﷺ نے اس کی ناواقفیت کی بناء پر انہیں نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔ حضرت امام نووی فرماتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی نماز میں یرحمک اللہ کہے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں دوسرے آدمی کو خطاب کرنا پایا جاتا ہے اور اگر کوئی ی (رح) کہے تو نماز اس کی باطل نہیں ہوتی حضرت ابن ہمام (رح) کا قول ہے کہ اگر کوئی اپنے نفس کے لئے یرحمک اللہ کہے تو نماز فاسد نہیں ہوتی جیسا کہ یرحمنی اللہ کہنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔ ارشاد نبوت اِنَّ ھٰذِہِ الصَّلٰوۃَ لَا یَصْلُحْ فِیْھَا شَیْیءٌ مِنْ کَلاَمِ النَّاسِ (نماز میں انسان کی بات مناسب نہیں ہے) میں کلام الناس اس لئے فرمایا گیا ہے تاکہ اس حکم سے وہ تسبحیات و اذکار نکل جائیں جو نماز میں پڑھے جاتے ہیں جو اگرچہ انسان کا کلام ہی ہیں لیکن ان سے انسانوں کو خطاب کرنے یا ان کو سمجھانے کا ارادہ نہیں ہوتا لہٰذا یہاں کلام الناس (انسان کی بات) سے مراد وہ کلام ہے جس میں لوگوں کو خطاب کیا گیا ہو یا خود مخاطب بننے کا ارادہ ہو۔ فقہاء لکھتے ہیں کہ اگر کوئی آدمی کسی نمازی سے حالت نماز میں پوچھے کہ تمہارے پاس کیا اور کس قسم کا مال ہے؟ اور وہ نمازی جواب میں یہ آیت پڑھے (وَّالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيْرَ ) 16۔ النحل 8) (گھوڑے، خچر اور گدھے) یا کسی نماز پڑھنے والے کے آگے کوئی کتاب رکھی ہو اور ایک آدمی یحییٰ نامی سامنے کھڑا ہوا ہو اور اس آدمی کو خطاب کرنے کی نیت سے یہ آیت پڑھے (يٰ يَحْ يٰى خُذِ الْكِتٰبَ بِقُوَّةٍ ) 19۔ مریم 12) (اے یحییٰ یہ کتاب لے لو) تو ان صورتوں میں نمازی نے اگرچہ قرآن کی آیتیں پڑھی ہیں لیکن یہ پڑھنا چونکہ ایک دوسرے آدمی کو خطاب کرنے کے ارادے سے ہے اس لئے نماز فاسد ہوجائے گی۔ ہاں اگر خطاب کا ارادے نہ کرے بلکہ قرأت کے ارادہ سے پڑھے گا تو نماز فاسد نہیں ہوگی۔ کاہن کی تعریف عرب میں کاہن ان لوگوں کو کہتے ہیں جو جنات شیاطین اور ارواح خبیثہ کے ساتھ تعلق رکھتے تھے اور شیاطین جھوٹی سچی خبریں ان کو بتا تے تھے، اس طرح وہ لوگ علم غیب کا دعوی کر کے شیاطین و جنات کی پہنچائی ہوئی انہی باتوں کو غیب کی بات کہہ کر دوسرے لوگوں تک پہنچاتے تھے۔ ایسے لوگوں کے پاس جانے سے رسول اللہ ﷺ نے روکا ہے چناچہ ایک دوسری روایت میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو آدمی کسی عراف یا کاہن کے پاس جائے اور ان کی بتائی ہوئی باتوں کو سچ جانے تو اس نے بیشک محمد ﷺ پر اتاری گئی چیز (یعنی قرآن) سے کفر کیا۔ اس روایت کو امام احمد نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی صحیح سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔ عراف کسے کہتے ہیں کاہن کی تعریف تو معلوم ہوگئی، اب یہ بھی جان لیجئے عراف کسے کہتے ہیں۔ عراف اس آدمی کو کہتے ہیں جو کسی عمل یا جادو و منتر کے ذریعے کسی چیز کی حقیقت بیان کرتا ہے، چوری کی چیزوں کا پتہ بتاتا ہے اور مکان کی کسی گم شدہ چیز کا حال بتاتا ہے ان کے پاس بھی جانے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔ عمل رمل جس طرح جنات و شاطین کے ذریعے یا علم نجوم کے ذریعہ غیب کی باتوں کا پتہ لگانے کی کچھ لوگ کوشش کرتے ہیں۔ اسی طرح رمل کے ذریعے بھی کچھ لوگ غیب کی باتوں تک پہنچنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ رمل اس علم کا نام ہے جس میں خطوط کھینچ کر اور ان کے ذریعے حساب لگا کر پوشیدہ باتوں کو جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حدیث کے الفاظ سے بظاہر تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رمل کے بارے میں ایک ایسا کلمہ بیان فرما دیا ہے جس سے کسی نہ کسی حد تک علم رمل کا جواز نکلتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ پہلے تو سمجھ لیجئے کہ وہ نبی جو علم رمل جانتے تھے اور خط کھینچتے تھے حضرت ادریس یا حضرت دانیال علیہما السلام تھے اس کے بعد حدیث کی طرف آئیے، رسول اللہ ﷺ کے ارشاد سے علم رمل کا جواز نہیں ہوتا کیونکہ بقول خطابی یہاں رسول اللہ ﷺ نے تعلیق بالمحال کی ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے فَمَن وَّافَقَ خُطُّہ ازراہ زجر فرمایا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی دوسرے کا خط کھینچنا اس نبی ﷺ کے خط کھینچنے کے موافق نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ ان نبی کا معجزہ تھا اور معجزہ صرف نبی ﷺ کی ذات تک محدود رہتا ہے اور پھر یہ کہ اگر کوئی آدمی خط کھینچے اور کہے کہ یہ اس نبی کے خط کھینچنے اور کہے کہ یہ اس نبی کے خط کھینچنے کے موافق ہے تو یہ غلط ہوگا۔ اس لئے کہ خط کی موافقت صحیح طور پر تواتر یا نص سے ثابت ہوسکتی ہے جو رسول اللہ ﷺ سے منقول ہو۔ جب کہ رسول اللہ ﷺ سے یہ منقول نہیں۔ لہٰذا ارشاد نبوت سے حاصل یہ نکلا کہ جب کسی رمال (علم رمل جاننے والا) اور اس نبی کے خط میں موافقت نہیں ہوسکتی تو بھی عمل رمل کو اختیار کرنا بھی درست نہیں۔ اسی طرح کہ دو اور سلسلے ہیں ان کا مدار حساب پر ہے جنہیں اصطلاحی طور پر عمل تکسیر اور عمل تخریج سے موسوم کیا جاتا ہے ان کے بارے میں بھی محققین علماء اور مشائخ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ اعمال بھی شرعًا جائز نہیں ہیں اور ان کا بھی وہی حکم ہے جو اوپر مذکور ہوچکا ہے۔ آخر عبارت کا مطلب یہ ہے کہ لفظ کذا علامت صحت ہے یعنی اگر یہ ضرورت محسوس ہو کہ عبارت میں کسی ایسے لفظ پر کہ جس کے بارے میں عدم صحت کا گمان ہوگیا ہے کوئی ایسی علامت لگا دی جائے جس کے ذریعہ سے اس لفظ کا صحیح ہونا ثابت ہوجائے تو اس موقع پر اس لفظ پر کذا لکھ دیتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ لفظ اس طرح صحیح ہے، چونکہ اس حدیث کا لفظ لکنی اصول میں ہے، مگر مصابیح میں نہیں ہے، اس صورت میں یہ ممکن تھا کہ اس لفظ کے عدم صحت کا گمان ہوجاتا۔ اس لئے صاحب جامع الاصول نے اس لفظ پر کذا لکھ کر اس بات کی تصحیح کردی ہے کہ یہ لفظ اصول میں یوں ہی ہے اور یہ صحیح ہے۔
Top