مشکوٰۃ المصابیح - نماز کا بیان - حدیث نمبر 979
وَعَنْ عَطَآءِ بْنِ ےَسَارٍص عَنْ اَبِیْ سَعِےْدٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا شَکَّ اَحَدُکُمْ فِیْ صَلٰوتِہٖ فَلَمْ ےَدْرِکَمْ صَلّٰی ثَلٰثًا وَّاَرْبَعًا فَلْےَطْرِحِ الشَّکَّ وَلْےَبْنِ عَلٰی مَا اسْتَےْقَنَ ثُمَّ ےَسْجُدْ سَجْدَتَےْنِ قَبْلَ اَنْ ےُسَلِّمَ فَاِنْ کَانَ صَلّٰی خَمْسًا شَفَعْنَ لَہُ صَلٰوتَہُ وَاِنْ کَانَ صَلّٰی اِتَمَامًا لِّاَرْبَعٍ کَانَتَا تَرْغِےْمًا لِّلشَّےْطَانِ (رَوَاہُ مُسْلِمٌ )
رکعتوں کی تعداد بھول جانے کی صورت میں سجدئہ سہو کا حکم
اور حضرت عطاء ابن یسار حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سرور کونین ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کوئی آدمی درمیان نماز شک میں مبتلا ہوجائے اور اسے یاد نہ رہے کہ اس نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا شک دور کرے اور جس عدد پر اسے یقین ہو اس پر بناء کرے (یعنی کسی ایک عدد کا تعین کر کے نماز پوری کرلے) اور پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ اگر اس نے پانچ رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ پانچ رکعتیں ان دو سجدوں کے ذریعے اس کی نماز کو جفت کردیں گی اور اگر اس نے پوری چار رکعتیں پڑھی ہوں گی تو یہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بنیں گے مسلم اور مالک نے اس روایت کو عطاء سے بطریق ارسال نقل کیا ہے نیز امام مالک کی ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نمازی ان دونوں سجدوں کے ذریعے پانچ رکعتوں کو جفت کر دے گا۔

تشریح
صورت مسئلہ یہ ہے کہ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے درمیان نماز وہ شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا یعنی اسے یاد نہیں رہا کہ اس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اسے چاہئے کہ وہ کمتر عدد کا تعین کرے اور اسی کا گمان غالب کر کے نماز پڑھ لے مثلاً اسے یہ شبہ ہو کہ نہ معلوم میں نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار رکعتیں تو اس صورت میں اس تین رکعتوں کا تعین کر کے نماز پوری کرنی چاہیے اور پھر آخری قعدے میں التحیات پڑھنے کے بعد سلام پھیرنے سے پہلے دائیں طرف سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کرنا چاہئے۔ صحیح البخاری کی روایت میں سلام پھیرنے سے پہلے سجدہ سہو کرنے کی قید نہیں ہے چناچہ اسی وجہ سے ائمہ کے ہاں اس بات پر اختلاف ہے کہ سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرنے چاہئے یا سلام پھیرنے کے بعد۔ اس مسئلے کی تفصیل ہم آئندہ کسی حدیث کے فائدہ کے ضمن میں بیان کریں گے۔ حدیث میں سہو کے دونوں سجدوں کا فائدہ بھی بتایا گیا ہے چناچہ فرمایا گیا ہے کہ اگر کسی آدمی نے مذکورہ صورت میں تین رکعت کا تعین کر کے ایک رکعت اور پڑھ لی حالانکہ حقیقت میں وہ چار رکعتیں پہلے پڑھ چکا تھا اس طرح اس کی پانچ رکعتیں ہوگئی تو پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں کی وجہ سے اس کی نماز کو شفع (جفت کردیں گی کیونکہ وہ دونوں سجدے ایک رکعت کے حکم میں ہیں یعنی یہ پانچ رکعتیں ان دونوں سجدوں سے مل کر چھ رکعت کے حکم میں ہوجائیں گی اور اگر اس نے حقیقت میں تین ہی رکعتیں پڑھی ہیں اور سہو کی صورت میں اس نے تین ہی کا تعین کرکے ایک رکعت اور پڑھی اور اس کی چار رکعتیں پوری ہوگئیں تو اس کے وہ دونوں سجدے شیطان کی ذلت کا سبب بن جائیں گے۔ یعنی اس صورت میں جب کہ اس آدمی نے چار ہی رکعتیں پڑھی ہیں تو دونوں سجدوں کی ضرورت نہیں تھی کہ وہ نماز کو جفت کردیں جیسا کہ پہلی صورت (پانچ رکعتیں پڑھنے کی صورت) میں ان دونوں سجدوں کی ضرورت تھی لیکن ان دونوں سجدوں کو جو بظاہر زائد معلوم ہوتے ہیں یہ فائدہ ہوا کہ ان سے شیطان کی ذلت و ناکامی ہوئی۔ کیونکہ شیطان کا مقصد تو یہ تھا کہ وہ نمازی کو شک و شبہ میں مبتلا کر کے اسے عبادت سے باز رکھے حالانکہ نمازی نے اس کے برعکس دو سجدے اور کر کے عبادت چھوڑنے کی بجائے اس میں زیادتی کی جو یقینی بات ہے کہ شیطان کی ناکامی و نامرادی کا باعث ہے۔ اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ شک کی صورت میں اقل (کمتر) کو اختیار کرنا چاہئے تحری (غالب گمان) پر عمل نہ کیا جائے چناچہ جمہور ائمہ کا بھی یہی مسلک ہے۔ امام ترمذی کا قول یہ ہے کہ اہل علم میں سے بعض حضرات کا مسلک یہ ہے کہ شک کی صورت میں نماز کا اعادہ کرنا چاہیے یعنی اگر کسی کو درمیان نماز میں رکعتوں کی تعداد کے بارے میں شک ہوجائے تو اسے چاہیے کہ نماز کو از سر نو پڑھے۔ اس مسئلے میں امام اعظم ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی آدمی کو نماز میں شک ہوجائے کہ کتنی رکعتیں پڑھی ہیں تو اگر اس آدمی کی عادت شک کرنے کی نہ ہو تو اسے چاہیے کہ پھر نئے سرے سے نماز پڑھے اور اگر اس کو شک ہونے کی عادت ہو تو اپنے غالب گمان پر عمل کرے یعنی جتنی رکعتیں اس کو غالب گمان سے یاد پڑیں تو اسی قدر رکعتیں سمجھے کہ پڑھ چکا ہے اور اگر غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو کمتر عدد کو اختیار کرے مثلاً کسی کو ظہر کی نماز میں شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار اور غالب گمان کسی طرف نہ ہو تو اسے کو چاہیے کہ تین رکعتیں شمار کرے اور ایک رکعت اور پڑھ کر نماز پوری کرلے پھر سجدہ سہو کرلے۔ اتنی بات سمجھ لینی چاہیے کہ غالب گمان پر عمل کرنے کی وجہ یہ ہے کہ شریعت میں غالب گمان کو اختیار کرنے کی اصل موجود ہے جیسا کہ اگر کوئی آدمی کسی ایسی جگہ نماز پڑھنا چاہے جہاں سے قبلے کی سمت معلوم نہ ہو سکے تو اس کے لئے حکم ہے کہ وہ جس سمت کے بارے میں غالب گمان رکھے کہ ادھر قبلہ ہے اسی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے اس کی نماز ہوجائے گی۔ غالب گمان کو اختیار کرنے کے سلسلے میں احادیث بھی مروی ہیں۔ چناچہ صحیحین میں حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ کی ایک روایت ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب تم میں سے کسی کو نماز میں شک واقع ہوجائے تو اسے چاہیے کہ وہ صحیح رائے قائم کر کے (یعنی کسی ایک پہلو پر غالب گمان کر کے) نماز پوری کرلے اس حدیث کو شمنی نے بھی شرح نقایہ میں نقل کیا ہے نیز جامع الاصول میں بھی نسائی سے ایک حدیث تحری ( غالب گمان) پر عمل کرنے کے صحیح ہونے کے بارے میں منقول ہے۔ امام محمد (رح) نے اپنی کتاب موطا میں تحری کی افادیت کے سلسلے میں یہ کہتے ہوئے کہ تحری کے سلسلے میں بہت آثار وارد ہیں بڑی اچھی بات یہ کہی ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے یعنی تحری کو قابل قبول نہ قرار دیا جائے تو شک اور سہو سے نجات ملنی بڑے مشکل ہوگی اور پہر شک و شبہ کی صورت میں اعادہ بڑی پریشانی کا باعث بن جائے گا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے اس موقع پر مسئلہ مذکورہ کا تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس موقع پر حاصل کلام یہ ہے کہ اس مسئلہ کے سلسلہ میں تین احادیث منقول ہیں۔ پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ نماز میں جب بھی کسی کو شک واقع ہوجائے تو وہ نماز کو از سر نو پڑھے دوسری حدیث کا ماحصل یہ ہے کہ جب کسی کو نماز میں شک واقع ہوجائے تو اسے چاہئے کہ صحیح بات کو حاصل کرنے کے لئے تحری کرے۔ یعنی غالب گمان پر عمل کرے۔ تیسری حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ جب نماز میں شک واقع ہو تو یقین پر عمل کرنا چاہیے یعنی جس پہلو پر یقین ہو اسی پر عمل کیا جائے حضرت امام ابوحنیفہ (رح) نے ان تینوں حدیثوں کو اپنے مسلک میں جمع کردیا ہے اس طرح کہ انہوں نے پہلی حدیث کو تو مرتبہ شک واقع ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے، دوسری حدیث کو کسی ایک پہلو پر غالب گمان ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے اور تیسری حدیث کو کسی بھی پہلو پر غالب گمان نہ ہونے کی صورت پر محمول کیا ہے۔ حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضرت امام اعظم کے مسلک کے کمال جامعیت اور انتہائی محقق ہونے کی دلیل ہے۔
Top