مشکوٰۃ المصابیح - کفاروں کا بیان - حدیث نمبر 3845
وعن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كتب إلى كسرى وإلى قيصر وإلى النجاشي وإلى كل جبار يدعوهم إلى الله وليس بالنجاشي الذي صلى عليه النبي صلى الله عليه و سلم . رواه مسلم
آنحضور ﷺ کے تمام سربراہان مملکت کو خطوط لکھ کر اسلام کی دعوت دی
اور حضرت انس کہتے ہیں کہ فارس یعنی ایران کے بادشاہ کسریٰ روم کے بادشاہ قیصر اور حبش کے بادشاہ نجاشی اور ہر متکبر و مقتدر بادشاہ کو خطوط لکھے جن میں انہیں اللہ یعنی دین اسلام کی طرف بلایا گیا تھا اور یہ نجاشی کہ جس نے یہ خط بھیجا تھا وہ نجاشی نہیں ہے جس کے لئے نبی کریم ﷺ نے مدینہ میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی تھی۔ (مسلم)

تشریح
روایت کے آخری جزء کا مقصد ان لوگوں کے خیال کی تردید کرنا ہے جن کے نزدیک یہ نجاشی کہ جس کو مکتوب بھیجا گیا تھا وہی نجاشی ہے جس کا نام اصحمہ تھا اور جو آنحضرت ﷺ کا مطیع و فرنبردار اور آپ ﷺ کے اصحاب کا اپنے ملک میں خادم ونگہبان تھا جب مدینہ میں اس کا انتقال کی خبر آئی تو آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ مرد صالح اور تمہارا بھائی اصحمہ اللہ کو پیارا ہوگیا ہے، اٹھو اور اس کا نماز جنازہ پڑھو چناچہ آپ ﷺ نے اس کی غائبانہ جنازہ پڑھائی۔ لیکن بعض محققین کے نزدیک اس تردید کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے دونوں نجاشیوں کو مکتوب بھیجے پہلے تو اصحمہ کا نام بھیجا تھا اور پھر اصحمہ کے بعد جو شخص نجاشی ہوا اس کے پاس بھی آپ ﷺ نے مکتوب بھیجا۔ اب رہی یہ بات کہ جس طرح پہلا نجاشی یعنی اصحمہ مسلمان ہوگیا تھا اس طرح دوسرا نجاشی بھی مسلمان ہوگیا تھا یا نہیں؟ اس بارے میں تحقیقی روایات مختلف ہیں بعض کے نزدیک وہ بھی مسلمان ہوگیا تھا مگر بعض حضرات کہتے ہیں کہ وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ چونکہ پہلے قیصر اور کسریٰ کے بارے میں ذکر کیا جا چکا ہے اس لئے نجاشی کے بارے میں بھی کچھ باتیں ذکر کردینا ضروری ہے حبش عرب کی جنوبی سمت میں مشرقی افریقہ میں واقع ایک ملک ہے آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت اس ملک پر جو شخص حکمران تھا اس کا نام اصحمہ اور پورا ملک عیسائیت کا پیرو تھا۔ حبش اصل میں عربی نام ہے یونانی میں اسے اتھوپیا کہتے ہیں اور دنیا کے موجودہ نقشہ میں بھی یہ اتھوپیا ہی کے نام سے موسوم ہے۔ حبشی زبان میں بادشاہ کو نجوس کہتے ہیں نجاشی اسی نجوس کا معرب ہے۔ اسلامی تاریخ میں اس وقت کے حبش کا ذکر نہایت ہی عزت و احترام اور شکر گذاری وممنونیت کے انتہائی جذبات کے ساتھ ہوتا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ نے جب اپنی بعثت کے فورًا بعد دنیا کو اللہ کے آخری دین اسلام کی طرف بلایا اور اپنی رسالت کا اعلان کر کے دنیا والوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی اور رفتہ رفتہ مکہ کے لوگ آپ ﷺ کے حلقہ اطاعت میں داخل ہونے لگے اور اس طرح اللہ کے نام کا جھنڈا سربلند ہونے لگا تو مکہ کے کفار اس کو برداشت نہ کرسکے اور ان کی طرف سے مکہ مکرمہ کی وسیع سر زمین حلقہ بگوشان اسلام پر اللہ واحد کا نام لینے کے جرم میں تنگ کردی گئی چناچہ اس وقت جب قریش مکہ کے مظالم انسانیت کی تمام حدوں کو پیچھے چھوڑ گئے اور پرستاران توحید پر ظلم وستم اور بربریت کی انتہا ہوگئی اور آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو مکہ سے ہجرت کر کے چلے جانے کی اجازت دی تو یہ حبش ہی تھا جس نے اپنے ملک کے دروازے ان مظلوموں کے لئے پوری فراخدلی کے ساتھ کھول دیئے اور ان کو اپنی سر زمین پر انتہائی عزت و احترام کے ساتھ پناہ دی۔ مسلمانوں کا پہلا قافلہ جس نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کی حضرت عثمان غنی کی سربراہی میں حبش پہنچا اس کے بعد جب دوسرا قافلہ حبشہ پہنچا اور جس کے قائد حضرت علی کے بڑے بھائی حضرت جعفر طیار تھے تو اس مرتبہ آنحضرت ﷺ نے شاہ حبش کے نام ایک مکتوب گرامی بھی ارسال فرمایا اور بعض مؤرخین کے قول کے مطابق مکتوبات نبوی ﷺ میں یہ پہلا نامہ مبارک ہے اس میں نجاشی کو صرف اسلام کی دعوت ہی نہیں دی گئی تھی بلکہ اس بات کی نصیحت کی گئی تھی کہ وہ حکومت کے غرور وتکبر کو ترک کر کے حبش میں پناہ لینے کے لئے جانے والے مظلوم مکی مسلمانوں کے ساتھ تواضع سے پیش آئے۔ قریش مکہ کو چونکہ یہ بھی گوارہ نہ تھا کہ مسلمان حبش میں امن و سکون کی زندگی گذار سکیں اس لئے انہوں نے معززین مکہ کا ایک وفد عمرو بن العاص جیسے زبردست موقع شناس اور دانش مند سیاستدان کی سربراہی ہی میں شاہ حبش کے دربار میں بھیجا تاکہ وہ ان مہاجر مسلمانوں کو حبش سے واپس لے آئے اور مکہ میں انہوں نے پھر سے اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایا جائے اس وفد نے شاہ حبش کے سامنے مسلمانوں کی شکایت کی اور نجاشی کو مشتعل کرنے کے لئے یہ کہا کہ یہ لوگ عجیب و غریب عقائد رکھتے ہیں جن سے نہ ہم واقف ہیں اور نہ آپ۔ نجاشی شاہ حبش نے وفد کی اس شکایت پر مہاجرین سے حقیقت حال کی وضاحت کے لئے کہا اور ان سے ان کے عقائد دریافت کئے تو اس موقع پر حضرت جعفر طیار نے جو معرکۃ آلا راء تقریر کی وہ حق گوئی وبے با کی اور ایک شاہی دربار میں اسلامی عقائد ونظریات کا جرأت مندانہ ذریعہ تعارف ہونے کی وجہ سے صرف اسلامی تاریخ ہی کا ایک بیش بہا سرمایہ نہیں ہے بلکہ دنیا کی ادبی تاریخ کا ایک زرین ورق اور فن خطابت وتقریر کا ایک انمول شاہکار بھی ہے انہوں نے نے شاہ حبش کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ شاہ ذی جاہ! ہم ایک سخت جاہل قوم تھے، مصنوعی اور خود ساختہ بتوں کی پرستش ہمارا مذہبی شعار تھا مردار خوری، بدکاری اور بےرحمی ہماری معاشرت کا اہم جزو بن گیا تھا ہم نہ ہمسایہ کے حقوق سے واقف تھے اور نہ اخوت و ہمدردی کے جذبہ سے آشنا، ہر طاقتور، کمزوروں کو ہڑپ کر جانے پر فخر کرتا تھا۔ یہ تھا ہمارا معیار زندگی۔ ہماری اس تباہ حالی کا دور عرصہ سے قائم تھا کہ یک بیک خدائے برتر نے ہماری قسمت کا پانسہ پلٹ دیا اور ہم میں ایک ایسا پیغمبر بھیجا جس کے نسب وحسب سے ہم واقف ہیں جس کی سچائی اور امانت کا حال ہم پر روشن ہے اور جس کی عفت وپاک دامنی ہر وقت ہماری نظروں میں رہی ہے اور وہ آیا اور اس نے ہمیں ہدایت کی وہ روشن شمع دکھلائی جس نے ہماری آنکھوں سے بد کر داری اور جہالت کی تاریکی کے تمام پردے چاک کر دئیے۔ اس پیغمبر نے ہمیں بتایا کہ تم صرف خدائے واحد کی پرستش کرو اور اسی کو اپنا خالق ومالک سمجھو، بت پرستی کو چھوڑ دو تمہارے یہ خود ساختہ معبود نہ تمہیں کوئی نفع پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان! (یاد رکھو) گمراہی کی بنیاد باپ دادا کی کو رانہ تقلید ہے۔ اس نے ہمیں تعلیم دی کہ ہمیشہ سچ بولو امانت میں کبھی خیانت نہ کرو، ہمسایہ کے ساتھ ہمدردی اور حسن سلوک کو ہمیشہ اپنا شعار بنائے رکھو، خون ریزی اور اللہ کی حرام کی ہوئی باتوں سے بچو، فحش کاموں اور جھوٹ کے قریب نہ جاؤ یتیم کا مال نہ کھاؤ اور پاکدامن کو تہمت نہ لگاؤ، خدائے واحد کی عبادت کرو، روزہ رکھو اور اموال کی زکوٰۃ دیا کرو۔ بادشاہ سلامت! اس نبی ﷺ نے اس قسم کے اور بہت سے بہترین امور کی ہمیں تعلیم دی دے ہے ہم نے اس کی تصدیق کی، اس کو اللہ کا پیغمبر سمجھا اور اس پر ایمان لائے اور جو کچھ اس نے اللہ کا حکم ہمیں سنایا، ہم نے اس کی پیروی کی، ہم نے اللہ کو ایک جانا، شرک سے توبہ کی، حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا۔ یہ ہے ہمارا جرم جس پر ہمارے ہم وطنوں نے ہمیں اپنا گھر بار چھوڑ دینے پر مجبور کردیا اور ہم نے آپ کے ملک میں آ کر پناہ لی ہے۔ شاہ حبش اس پر حقائق اور بصیرت افروز تقریر کا بہت اثر ہوا، اس نے قریش کے وفد کو صاف جواب دے دیا کہ ایسے پاکیزہ عقائد رکھنے والے نیکو کار لوگوں کو میں واپس کر کے ظالموں کے ظلم وستم کا شکار ہرگز ہرگز نہ بننے دوں گا۔ ٦ ھ کے آخر میں آنحضرت ﷺ حدیبیہ کے بعد مدینہ واپس آئے اور محرم ٧ ھ = ٦٢٩ ء میں آپ ﷺ نے شاہان عالم کے نام نامہ ہائے مبارک روانہ فرمائے تو شاہ حبش کو پھر ایک مکتوب گرامی ارسال فرمایا بارگاہ رسالت کے سفیر حضرت عمرو ابن امیہ ضمری آپ ﷺ کا نامہ مبارک لے کر شاہ حبش کے دربار میں پہنچے تو پہلے انہوں نے نجاشی کے سامنے ایک اثر انگیز تقریر کی جس میں انہوں نے نجاشی کے اس مشفقانہ رویہ پر اظہار اطمینان کیا جو اس نے مکہ کے مظلوم مسلمانوں کے تئیں اختیار کیا ہوا تھا اور پھر اسلامی عقائد اور آنحضرت ﷺ کی پیروی اختیار کرنے کی مؤثر تبلیغ کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ۔ میری طرح رسول کریم ﷺ کی جانب سے بعض دیگر اشخاص مختلف بادشاہوں کے پاس دعوت اسلام کے لئے قاصد بنا کر بھیجے گئے ہیں مگر سرور کائنات ﷺ کو جو امید آپ کی ذات سے وابستہ ہے دوسروں سے ایسی امید نہیں ہے آپ سے اس بارے میں پورا اطمینان ہے کہ آپ اپنے اور اللہ کے درمیان اپنی گذشتہ نیکی اور آئندہ کے اجر وثواب کا خیال رکھیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے حضرت جعفر طیار کی معجز بیانی سے نجاشی اسلام کی دعوت سے واقف ہوچکا تھا اب حضرت عمرو ابن امیہ کی اثر انگیز تبلیغ نے اس کے سینے میں ایمان کی شمع روشن کردی، وہ تخت شاہی سے نیچے اتر کر زمین پر بیٹھ گیا، نامہ مبارک کو ہاتھ میں لے کر تعظیمًا اس کو چوما اور دونوں آنکھوں سے لگایا اور پھر ترجمان کو بلوا کر پڑھنے کا حکم دیا، نجاشی فرمان رسالت ﷺ کو سنتا جاتا تھا اور متأثر ہوتا جاتا تھا جوں ہی مضمون ختم ہوا اور وہ اس کے مندرجات پر مطلع ہوا فرط شوق میں نامہ مبارک کو بوسہ دے کر سر پر رکھ لیا اور کہا (اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمد الرسول اللہ) اور پھر کہا کہ اگر میں جاسکتا تو آنحضرت ﷺ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوتا پھر اس نے اپنے بیٹے آرہا کو تحفے تحائف دے کر بارگاہ رسالت میں بھیجا مگر بدقسمتی سے آ رہا راستہ میں ہی انتقال کر گیا اور بارگاہ رسالت میں نہیں پہنچ سکا۔ اس کے بعد پھر آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرو ابن امیہ ضمری کو نجاشی کے نام اپنے ایک مکتوب گرامی دے کر حبش بھیجا نجاشی نے ان مبارک ناموں کو احتیاط کے ساتھ ہاتھی دانت کے ایک صندوق میں محفوظ کر کے اپنے خزانہ میں رکھ دئیے اور کہا کہ جب تک یہ فرمان موجود ہیں مجھے یقین ہے کہ اہل حبش مامون و محفوظ رہیں گے۔ چناچہ یہ مبارک نامے جب تک حبشہ کے خزانے میں موجود رہے ہر والی سلطنت اس مکتوب گرامی کی انتہائی تعظیم و تکریم کرتا اور پورے ملک کے لوگ اس کے ذریعہ برکت حاصل کرتے۔
Top