Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (4067 - 4162)
Select Hadith
4067
4068
4069
4070
4071
4072
4073
4074
4075
4076
4077
4078
4079
4080
4081
4082
4083
4084
4085
4086
4087
4088
4089
4090
4091
4092
4093
4094
4095
4096
4097
4098
4099
4100
4101
4102
4103
4104
4105
4106
4107
4108
4109
4110
4111
4112
4113
4114
4115
4116
4117
4118
4119
4120
4121
4122
4123
4124
4125
4126
4127
4128
4129
4130
4131
4132
4133
4134
4135
4136
4137
4138
4139
4140
4141
4142
4143
4144
4145
4146
4147
4148
4149
4150
4151
4152
4153
4154
4155
4156
4157
4158
4159
4160
4161
4162
مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 3521
حدود کا بیان
حد کے معنی حدود حد کی جمع ہے اور حد کے اصل معنی ہیں ممنوع نیز اس چیز کو بھی حد کہا جاتا ہے جو دو چیزوں کے درمیان حائل ہو اصطلاح شریعت میں حدود ان سزاؤں کو کہتے ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں جیسے چوری، زنا، شراب نوشی کی سزائیں۔ لفظ حد کے اصل معنی ممنوع یا حائل اگر پیش نظر ہوں تو واضح ہوگا کہ شرعی سزاؤں کو حدود اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں بندوں کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روکتی ہیں اور ان کا خوف انسان اور جرم کے درمیان حائل رہتا ہے۔ حدود اللہ محارم کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تقربوھا) اسی طرح مقادیر شرعی یعنی تین طلاقوں کا مقرر ہونا وغیرہ کے معنی میں بھی منقول ہیں جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا) لیکن واضح رہے کہ ان دونوں میں بھی حدود کا اطلاق اصل معنی ممنوع ہی کے اعتبار سے ہے کہ محارم کی قربت (یعنی ان سے نکاح وخلوت) بھی ممنوع ہے اور مقادیر شرعی سے تجاوز کرنا بھی ممنوع ہے۔ سزا کی تفصیل شرعی قانون نے جرم و سزاء کا جو ضابطہ مقرر کیا ہے اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت میں سزائیں تین طرح کی ہیں۔ (١) وہ سزائیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے متعین کردیا ہے مگر ان کے اجزاء کو خود بندوں پر چھوڑ دیا ہے ان میں کسی خارجی طاقت جیسے حاکم یا حکومت کو دخل انداز ہونے کا حکم نہیں ہے، شریعت نے اس طرح کی سزا کا نام کفارہ رکھا ہے جیسے قسم کی خلاف ورزی یا رمضان میں بلا عذر شرعی روزہ توڑ دینے کا نام کفارہ! (٢) وہ سزائیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے ثابت ہیں اور ساتھ ہی متعین ہیں، ان سزاؤں کو جاری کرنے کا اختیار تو حاکم یا حکومت کو ہے مگر ان میں قانون سازی کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے، اس طرح کی سزا کو شریعت میں حد کہتے ہیں جیسے چوری، زنا اور شراب نوشی کی سزائیں۔ (٣) وہ سزائیں جنہیں کتاب وسنت نے متعین تو نہیں کیا ہے مگر جن برے کاموں کی یہ سزائیں ہیں ان کو جرائم کی فہرست میں داخل کیا ہے اور سزا کے تعین کا مسئلہ حاکم یا حکومت کے سپرد کردیا ہے کہ وہ موقع ومحل اور ضرورت کے مطابق سزا خود متعین کریں گویا اس قسم کی سزاؤں میں حکومت کو قانون سازی کا حق بھی حاصل ہے مگر اس دائرہ کے اندر رہ کر جو شریعت نے متعین کر رکھا ہے اس طرح کی سزا شریعت میں تعزیر کہلاتی ہے۔ حد اور تعزیر میں فرق حد اور تعزیر میں بنیادی فرق یہ ہے کہ حد تو شریعت میں عقوبت ہے جو اللہ کا حق قرار دی گئی ہے اسی لئے اس کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ اس میں کوئی بندہ تصرف نہیں کرسکتا اور تعزیر کو حق اللہ کہا جاتا ہے بایں وجہ کہ بندہ اس میں تصرف کرسکتا ہے یعنی اگر وہ کوئی مصلحت دیکھے تو قابل تعزیر مجرم کو معاف بھی کرسکتا ہے اور موقع ومحل اور جرم کی نوعیت کے اعتبار سے سزا میں کمی زیادتی اور تغیر وتبدل بھی کرسکتا ہے، حاصل یہ کہ حد تو اللہ کی طرف سے متعین ہے جس میں کوئی تصرف ممکن نہیں اور تعزیر قاضی یا حکومت کے سپرد ہے اسی عدم تقدیر و تحقیق کی بنا پر تعزیر کو حد نہیں کہا جاتا۔ چونکہ قصاص بھی بندہ کا حق ہے کہ وہ اپنے اختیار سے مجرم کو معاف کرسکتا ہے اس لئے اس کو بھی حد نہیں کہا جاتا۔
Top