مشکوٰۃ المصابیح - کھانوں کے ابواب - حدیث نمبر 4097
وعن أيوب قال : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أتي بطعام أكل منه وبعث بفضله إلي وإنه بعث إلي يوما بقصعة لم يأكل منها لأن فيها ثوما فسألته : أحرام هو ؟ قال : لا ولكن أكرهه من أجل ريحه . قال : فإني أكره ما كرهت . رواه مسلم
لہسن کھانا جائز ہے
اور حضرت ابوایوب انصاری ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے پاس جب کھانا لایا جاتا تو آپ ﷺ اس میں سے کھاتے اور باقی بچا ہوا میرے پاس بھیج دیتے۔ ایک روز آپ ﷺ نے میرے پاس (ایسا) پیالہ بھیجا (جس میں کھانا تھا) اور اس میں سے خود کچھ نہیں کھایا تھا اس لئے کہ اس میں لہسن تھا میں نے پوچھا کہ کیا لہسن حرام ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا۔ نہیں! بلکہ اس کی بو کے سبب میں اس کو (کھانا) پسند نہیں کرتا۔ حضرت ابوایوب ؓ نے عرض کیا۔ تو پھر (میں بھی اس کھانے کو نہیں کھاؤں گا کیونکہ) جس چیز کو آپ ﷺ نے ناپسند کیا ہے اس کو میں بھی ناپسند کرتا ہوں۔ (مسلم)

تشریح
حضرت ابوایوب انصاری ؓ بڑے جلیل القدر انصاری صحابی ہیں ان کو ایک امتیازی درجہ حاصل ہے کہ جب نبی کریم ﷺ نے اپنے گھر بار چھوڑ کر مکہ سے ہجرت فرمائی اور مدینہ منورہ تشریف لائے تو سب سے پہلے حضرت ابوایوب انصاری ؓ ہی کے ہاں اترے اور ان کو میزبان رسول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ اور ہوسکتا ہے کہ حضرت ابوایوب ؓ نے جس معمول کا ذکر کیا ہے، (کہ آنحضرت ﷺ باقی بچا ہوا کھانا اس کے پاس بھجواتے تھے) وہ انہی دنوں کا ہو جب کہ آپ ﷺ حضرت ابوایوب کے ہاں قیام فرما تھے۔ میں اس کو پسند نہیں کرتا اس ارشاد میں کھانے کو عیب لگانا مقصود نہیں ہے بلکہ اصل میں اس چیز کا اظہار مقصود ہے کہ اس کی بو مسجد میں جانے اور ملائکہ کے سامنے آنے سے روکتی ہے۔ نووی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی تصریح ہے کہ لہسن کا کھانا مباح ہے، لیکن اس شخص کے لئے مکروہ ہے جو جماعت میں شریک ہونے کا ارادہ رکھتا ہو (یعنی لہسن کھا کر نماز کے لئے مسجد میں جانا مکروہ ہے) اور یہی حکم ہر اس چیز کا ہے جس سے بدبو پیدا ہوتی ہو، جہاں تک آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کا تعلق ہے تو چونکہ آپ ﷺ ہر لمحہ وحی کے نازل ہونے کا متوقع رہتے تھے، اس لئے آپ ﷺ کبھی بھی لہسن نہیں کھاتے اور اس سے مکمل اجتناب فرماتے تھے۔ اس بارے میں علماء کے اختلافی اقوال ہیں، کہ پیاز، لہسن اور گندنا کا حکم آنحضرت ﷺ کی ذات گرامی کے لئے کیا تھا آیا یہ چیزیں آپ ﷺ کے لئے حرام تھیں یا نہیں؟ چناچہ بعض علماء نے یہ کہا کہ یہ چیزیں آنحضرت ﷺ کی ذات خاص کے لئے حرام نہیں تھیں ان کے نزدیک زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ مکروہ تنزیہی تھیں۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے والے اور پینے والے کے لئے یہ مستحب ہے کہ وہ جو چیز کھا یا پی رہا ہو اس میں سے کچھ باقی چھوڑ دے اور پھر اس کو اپنے محتاج ہمسایوں میں تقسیم کر دے۔ جس چیز کو آپ ﷺ نے ناپسند کیا ہے۔۔۔ الخ۔، اس بات میں یا تو آنحضرت ﷺ کی اتباع کامل کی طرف اشارہ ہے کہ آپ لہسن کو چونکہ ناپسند کرتے ہیں اس لئے میں بھی اس کو ہمیشہ ناپسند کروں گا، یا یہ کہ حضرت ابوایوب انصاری ؓ نے اپنے اس ارادہ کا اظہار کیا کہ جماعت میں شریک ہونے کے لئے مسجد جاتے وقت میں لہسن کا استعمال نہیں کروں گا۔
Top