مشکوٰۃ المصابیح - ممنوع چیزوں یعنی ترک ملاقات انقطاع تعلق اور عیب جوئی کا بیان - حدیث نمبر 4899
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله إذا أحب عبدا دعا جبريل فقال إني أحب فلانا فأحبه قال فيحبه جبريل ثم ينادي في السماء فيقول إن الله يحب فلانا فأحبوه فيحبه أهل السماء ثم يوضع له القبول في الأرض . وإذا ابغض عبدا دعا جبريل فيقول إني أبغض فلانا فأبغضه . فيبغضه جبريل ثم ينادي في أهل السماء إن الله يبغض فلانا فأبغضوه . قال فيبغضونه . ثم يوضع له البغضاء في الأرض . رواه مسلم
جس بندے کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اس کو زمین و آسمان والے بھی دوست رکھتے ہیں
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے محبت رکھتا ہے یعنی جب وہ اپنے بندوں میں کسی بندے کے تئیں اپنی خوشنودی کو ظاہر کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تو جبرائیل کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں بندے سے محبت رکھتا ہوں تم بھی اس سے محبت رکھو آنحضرت ﷺ نے فرمایا جبرائیل یہ سن کر اس بندے سے محبت رکھتے ہیں اور پھر وہ اللہ کے حکم سے آسمان میں یہ اعلان کرواتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلاں بندے سے محبت رکھتا ہے تم سب بھی اس بندے سے محبت رکھو چناچہ آسمان والے بھی اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور پھر اس بندے کے لئے زمین میں مقبولیت ہوجاتی ہے یعنی زمین والوں کے دلوں میں بھی اس کی محبت ڈال دی جاتی ہے اور تمام جن و انس اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے نفرت کرتا ہے تو جبرائیل کو بلا کر فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص سے نفرت کرتا ہوں تم بھی اس سے نفرت کرو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جبرائیل بھی اس سے نفرت کرنے لگتا ہے چناچہ آسمان والے بھی اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں یہاں تک اس شخص کے لئے زمین میں بھی عداوت و نفرت رکھ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے تمام جن و انس اس شخص سے نفرت کرنے لگتے ہیں۔ (مسلم)

تشریح
اللہ تعالیٰ کا کسی بندے کو دوست محبوب رکھنے کا مطلب دراصل اس بندے پر حق تعالیٰ کی طرف سے خیر و بھلائی اور ہدایت و فلاح کی بارش ہونا اور اس پر رحمت الٰہی کا نازل ہونا ہے اسی طرح اللہ کا کسی شخص سے نفرت کرنا گویا اس شخص کو عذاب میں مبتلا کرنے کی ارادہ الٰہی کو ظاہر کرنا، اس سے حق ہدایت کی توفیق کسی بندے کے حق میں ان کی محبت کو دو صورتوں پر محمول کیا جاسکتا ہے، ایک تو یہ کہ وہ اس بندے کے حق میں استغفار کرتے ہیں اس کی مدح و تعریف کرتے ہیں اور اس کے لئے بارگاہ الٰہی میں دعا کرتے ہیں دوسرے یہ کہ محبت کے وہی ظاہری معنی مراد ہیں جو عام طور پر مفہوم ہوتے ہیں یعنی ان کے دل میں اس بندے کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اس سے ملاقات کا اشتیاق رکھتے ہیں۔ ملا علی قاری کہتے ہیں کہ دوسری صورت یعنی محبت کو اس کے اپنے ظاہر معنی پر محمول کرنا زیادہ صحیح ہے کیونکہ جب کسی لفظ کو اس کے پہلے حقیقی معنی پر محمول کرنا صحیح ہو تو مجازی معنی مراد لینا غیر موزوں ہے علاوہ ازیں محبت کو اس کے حقیقی معنی پر محمول کرنے کی صورت میں پہلے معنی یعنی اس بندے کے حق میں جبرائیل اور فرشتوں کا دعا استغفار اور مدح تعریف کرنا ضمنی طور پر خود بخود متحقق ہوجاتے ہیں۔
Top