مشکوٰۃ المصابیح - نرمی و مہربانی حیاء اور حسن خلق کا بیان - حدیث نمبر 4952
وعن مصعب بن سعد عن أبيه قال الأعمش لا أعلمه إلا عن النبي صلى الله عليه وسلم قال التؤدة في كل شيء إلا في عمل الآخرة . رواه أبو داود
توقف وتاخیر نہ کرو
اور حضرت مصعب بن سعد نے اپنے والد سے ایک روایت نقل کی ہے کہ جس کے بارے میں حدیث کے راوی حضرت اعمش کہتے ہیں کہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ اس حدیث کو حضرت سعد ؓ نے نبی کریم ﷺ سے نقل کیا ہے اور وہ یوں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا توقف و تاخیر ہر عمل میں بہتر ہے مگر آخرت کے عمل میں نہیں۔ (ابوداؤد)

تشریح
مطلب یہ ہے کہ نیکی اور بھلائی کے کاموں میں توقف نہیں کرنا چاہیے بلکہ ان کو فورا کرلینا چاہیے کیونکہ نیک کام میں تاخیر کا مطلب بہت سی آفات اور کو تاہیوں کا خطرہ مول لینا ہے علاوہ ازیں دنیاوی امور کی نوعیت یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی دنیاوی کام کو کیا جائے تو ابتداء میں عام طور پر اس کے انجام کا حال معلوم نہیں ہوتا کہ آیا اس کا انجام یقینی طور پر اچھا ہوگا جس کی وجہ سے اس کو فورا کرلینا ضروری ہو یا اچھا نہیں ہوگا کہ اس کے کرنے میں تاخیر کی جائے لہذا تعلیم دی گئی ہے کہ اپنے دنیاوی کام میں توقف و تاخیر اختیار کرلو اور کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اچھی طرح غور و فکر کرلو اس کے خلاف دینی کاموں کا انجام چونکہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کا علم نہ ہو اس لئے ان میں تاخیر کی گنجائش نہیں ہوتی علاوہ ازیں قرآن کریم میں یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ نیکی بھلائی کے کاموں میں سبقت عجلت کرو اور مغفرت و بخشش کی طرف لپکو جو تمہارے پروردگار کی طرف سے ہے۔ تشریح امام غزالی نے اللہ کے ارشاد آیت (الشیطان یعدکم الفقر) کی تفسیر میں لکھا ہے کہ مومن کے لئے مناسب یہ ہے کہ جونہی اس کے دل میں اللہ کے نام پر اپنا مال خرچ کرنے کا داعیہ پیدا ہو تو وہ اس نیک کام میں قطعا تاخیر نہ کرے کیونکہ جب کوئی شخص اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا ہے تو شیطان اس کے دل میں وسوسہ ڈالنے لگتا ہے کہ اگر اپنا مال خرچ کر دے گا تو کنگال ہوجائے گا اسی طرح وہ اس کو فقر افلاس سے ڈراتا ہے اور صدقہ خیرات کرنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے لہذا توقف تاخیر کرنے کی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ شیطان کا داؤ چل جائے اور اس نیکی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ ایک بزرگ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ ایک دن بیت الخلاء میں تھے کہ انہوں نے وہیں سے اپنے شاگرد کو آواز دی کہا کہ میرے بدن کی قمیص اتار کر فلاں شخص کو دیدو شاگرد نے یہ سن کر کہا یہ بات آپ بیت الخلاء سے نکلنے کے بعد بھی کہہ سکتے تھے اس قدر بےصبری کی کیا وجہ ہے انہوں نے فرمایا کہ جیسے ہی میرے دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ میں یہ قمیص فلاں ضرورت مند کو دیدوں تو میں نے ارادہ کرلیا کہ فورا یہ نیک کام کر دوں کیونکہ میں اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کرسکتا نہ معلوم اس کا ارادہ کب بدل جائے اور میں اس نیکی سے محروم رہ جاؤں۔
Top