مشکوٰۃ المصابیح - غصہ اور تکبر کا بیان - حدیث نمبر 4966
وعن عمران بن حصين قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الحياء لا يأتي إلا بخير . وفي رواية الحياء خير كله متفق عليه
حیا کی فضیلت
اور حضرت عمران بن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حیاء نیکی اور بھلائی کے سوا کوئی بات پیدا نہیں کرتا ایک اور روایت میں یہ ہے کہ حیاء کی تمام صورتیں بہتر ہیں۔

تشریح
یہاں ایک اشکال پیدا ہوتا ہے کہ بسا اوقات حیاء بعض حقوق کی ادائیگی جیسے امربالمعروف میں مخل ہوتی ہے تو اس اعتبار سے حیاء کی تمام صورتیں کو بہتر قرار دینا کیسے درست ہوسکتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ جو حیاء اظہار حقیقت اور حق کی ادائیگی سے باز رکھے اس کو حیاء کہا جاتا ہی نہیں ہے بلکہ اس کو عجز اور بزدلی کہیں گے جو ایک طرح کی خرابی اور نقصان ہے اور اگر اس کو حیاء کہا بھی جائے تو زیادہ سے زیادہ مجازا کہا جاسکتا ہے کیونکہ شریعت کی نظر میں حقیقی حیاء وہی ہے کہ جو برائی کو ترک کرنے کا باعث بنے علاوہ ازیں یہ بات بھی کہی جاسکتی ہے کہ حیاء کے زیادہ صحیح معنی نفس کا برائی سے رک جانا خواہ وہ برائی طبعی ہو یا شرعی۔ اور شریعت میں جس حیاء کو بہتر اور قابل تعریف کہا گیا ہے اس کی صحیح پہچان یہ ہے کہ نفس اس چیز کو اختیار کرنے سے باز رہے جس کو شریعت نے برائی قرار دیا ہے خواہ وہ حرام ہو یا مکروہ یا ترک اولی لہذا مذکورہ بالا اشکال کا زیادہ واضح جواب یہ ہے کہ یہ کلیہ حیاء خیر کلہ، حیاء کی ان صورتوں کے ساتھ خاص ہے جو حق تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے مطابق ہوں۔
Top