مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5126
وعن سهل بن سعد قال مر رجل على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لرجل عنده جالس ما رأيك في هذا ؟ فقال رجل من أشراف الناس هذا والله حري إن خطب أن ينكح وإن شفع أن يشفع . قال فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم مر على رجل فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ما رأيك في هذا ؟ فقال يا رسول الله هذا رجل من فقراء المسلمين هذا حري إن خطب أن لا ينكح . وإن شفع أن لا يشفع . وإن قال أن لا يسمع لقوله . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم هذا خير من ملء الأرض مثل هذا . متفق عليه
فقراء کی فضیلت
حضرت سہل بن سعد ؓ کہتے ہیں کہ (ایک دن) رسول کریم ﷺ کے سامنے سے ایک شخص گزرا تو آپ ﷺ نے (اس کو دیکھ کر) اپنے پاس بیٹھے ہوئے ایک شخص سے پوچھا کہ یہ جو شخص گزرا ہے اس بارے میں تمہارا کیا خیال ہے، یعنی یہ کوئی اچھا شخص ہے یا برا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ یہ شخص نہایت معزز اور شریف ترین لوگوں میں ہے، بخدا، اس شخص کی حیثیت یہ ہے کہ اگر کسی عورت سے نکاح کا پیغام بھیجے تو اس عورت سے اس کا نکاح ہوجائے اور اگر (کسی حاکم و سردار سے کسی شخص کے بارے میں کوئی سفارش کرے تو اس کی سفارش مان لی جائے، راوی حضرت سہل ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ (یہ جواب سن کر) خاموش رہے، اتنے میں ایک دوسرا شخص سامنے سے گزرا تو آپ ﷺ نے اس کو دیکھ کر اپنے پاس بیٹھے ہوئے اسی شخص سے پوچھا کہ اچھا اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ! یہ شخص نادار، قلاش مسلمانوں میں سے ہے، اس کی حیثیت تو یہ ہے کہ اگر نکاح کا پیغام دے تو اس سے کوئی نکاح نہ کرے، اگر کسی کی سفارش کرے تو اس کی سفارش قبول نہ ہو اور اگر کوئی بات کہے تو اس کی وہ بات سننے پر کوئی تیار نہ ہو (یعنی یہ شخص اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے اتنی قدر و منزلت بھی نہیں رکھتا کہ کوئی شخص اس کی بات سننے پر آمادہ ہوجائے اور اس کی طرف التفات و توجہ کرے رسول کریم ﷺ نے یہ سنا تو فرمایا۔ (نادان) یہ شخص (کہ جس کو تم نے حقارت کی نظر سے دیکھا ہے اور ایک بےحیثیت انسان سمجھا ہے) اس شخص جیسے لوگوں سے ہری زمین سے بھی کہیں بہتر ہے (جس کی تم نے تعریف کی ہے) (بخاری ومسلم)

تشریح
اس شخص جیسے لوگوں سے بھری زمین الخ کا مطلب یہ ہے کہ اگر تمام روئے زمین اس شخص جیسے لوگوں سے بھر جائے جو پہلے یہاں سے گزرا تھا اور جس کی تعریف و توصیف میں تم رطب اللسان ہوئے تھے تو وہ ایک شخص کہ جو اپنے فقر و افلاس کی وجہ سے تمہاری نظر میں کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتا ہے مرتبہ و فضیلت کے اعتبار سے اس تمام روئے زمین سے کہیں بہتر قرار پائے گا۔ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت حضور ﷺ کے پاس جو صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور جن سے حضور ﷺ نے ان دونوں اشخاص کے بارے میں سوال کیا تھا وہ خود کوئی غنی اور مال دار شخص ہوں گے، لہٰذا ان کے ساتھ مذکورہ سوال و جواب گویا ان کے حق میں یہ تنبیہ تھی کہ غریب و نادار مسلمانوں کو بنظر حقارت نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ اللہ کے نزدیک ان کو جو فضیلت حاصل ہے وہ بڑے بڑے مالداروں کو بھی حاصل نہیں۔ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حضور ﷺ نے مالدار مسلمانوں کے مقابلہ پر غریب و نادار مسلمان کی اس درجہ فضیلت کیوں بیان فرمائی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ عام طور پر غریب و نادار مسلمان کا دل بہت صاف ہوتا ہے اور اس کے سبب وہ حق کو بہت جلد قبول کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی بہت زیادہ کرتا ہے، اس کے برخلاف غنی و مالدار لوگ عام طور پر بےحسی اور شقاوت میں مبتلا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سرکشی وبے نیازی اور تکبر کا وہ مادہ پیدا ہوجاتا ہے جو انہیں قبول حق اور احکام الٰہی کی پیروی سے باز رکھتا ہے۔ اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ آیت (سَاَصْرِفُ عَنْ اٰيٰتِيَ الَّذِيْنَ يَتَكَبَّرُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ) 7۔ الاعراف 146) اور اس حقیقت کا اندازہ علماء کے شاگردوں اور صلحاء و مشائخ کے مریدوں کو دیکھ کر کیا جاسکتا ہے کہ ان میں سے جو لوگ غریب و نادار ہوتے ہیں وہ حق بات کو بہت جلد قبول کرلیتے ہیں اور جو لوگ صاحب ثروت و مالدار ہوتے ہیں وہ ہر بات میں حیل و حجت کرتے ہیں۔ حدیث کے ظاہری مفہوم سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ پہلے گزرنے والا شخص بھی مالدار مسلمانوں میں سے تھا نہ کہ کوئی کافر تھا کیونکہ مفاضلہ (یعنی آپس میں ایک دوسرے کی اخروی فضیلت کو ظاہر کرنے) کا تعلق کفار و مسلمین کے مابین ہو ہی نہیں سکتا (یعنی کسی مسلمان اور کسی کافر کو ایک دوسرے کے مقابلہ پر رکھ کر یہ کہا ہی نہیں جاسکتا کہ اخروی اجر وثواب کے اعتبار سے ان میں سے کون شخص زیادہ افضل ہے) اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار میں سے کسی بھی شخص کی طرف سرے سے خیر (یعنی اخروی سعادت و بھلائی کی نسبت کی ہی نہیں جاسکتی (اور ظاہر ہے کہ جس شخص میں خیر سرے سے کوئی وجود ہی نہ ہوسکتا ہو اس کی طرف اخروی فضیلت کی نسبت بھی کسی طرح نہیں کی جاسکتی چناچہ بعض علماء نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جس مسلمان نے اپنی اپنی زبان سے یوں کہا کہ النصرانی خیر من الیہودی (یعنی عیسائی یہودی سے افضل ہے) تو اس کے بارے میں خوف ہے کہ وہ دائرہ کفر میں داخل نہ ہوگیا ہو کیونکہ اس نے اس جملہ کے ذریعہ گویا ان لوگوں میں خیر کا وجود ثابت کیا جن میں سرے سے خیر کا وجود ہی نہیں ہوسکتا، تاہم اس پر کفر کا اطلاق، جزم کے ساتھ نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ بعض موقعوں پر لفظ کے ذریعہ (اخروی سعادت و بھلائی کے بجائے) حق کے زیادہ قریب کا مفہوم بھی مراد لے لیا جاتا ہے اور ہوسکتا ہے کہ مذکورہ جملہ ادا کرنے والے نے لفظ خیر کو اسی مفہوم میں استعمال کیا ہو۔
Top