مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5141
وعن عبد الله بن مغفل قال جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال إني أحبك . قال انظر ما تقول . فقال والله إني لأحبك ثلاث مرات . قال إن كنت صادقا فأعد للفقر تجفافا للفقر أسرع إلى من يحبني من السيل إلى منتهاه . رواه الترمذي وقال هذا حديث حسن غريب
ذات رسالت ﷺ سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہو تو فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کرو
حضرت عبداللہ بن مغفل ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں آپ ﷺ سے (بہت زیادہ) محبت رکھتا ہوں! حضور ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ دیکھ لو کیا کہہ رہے ہو؟ یعنی اچھی طرح سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو، کیونکہ تم ایک بہت بڑی چیز کا دعویٰ کر رہے ہو، ایسا نہ ہو کہ بعد میں اپنی بات پر پورا نہ اتر سکو۔ اس شخص نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! میں آپ ﷺ سے محبت رکھتا ہوں۔ اور تین بار اس جملہ کو ادا کیا! حضور ﷺ نے فرمایا اگر تم میری محبت کے دعوے میں سچے ہو تو پھر فقر کے لئے پاکھر تیار کرلو کیونکہ جو شخص مجھ سے محبت رکھتا ہے اس کو فقر و افلاس اس پانی کے بہاؤ سے بھی زیادہ جلد پہنچتا ہے جو اپنے منتہا کی طرف جاتا ہے اس حدیث کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
تجفاف کے معنی ہیں پاکھر اور پاکھر اس آہنی جھول کو کہتے ہیں جو میدان جنگ میں ہاتھی گھوڑے پر ڈالی جاتی ہے تاکہ ان کا جسم زخمی ہونے سے بچا رہے جیسا کہ زرہ، سوار سپاہی کے جسم کو نیز و تلوار وغیرہ کے زخم سے محفوظ رکھتی ہیں۔ یہاں حدیث میں پاکھر کے ذریعہ صبر و استقامت کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ جس طرح پاکھر ہاتھی گھوڑے کے جسم کو چھپاتا ہے۔ اسی طرح صبر و استقامت اختیار کرنا، فقر و فاقہ کی زندگی کا سرپوش بنتا ہے حاصل یہ کہ صبر و استقامت کی راہ پر بہر صورت گامزن رہو، خصوصا اس وقت جب کہ فقر و افلاس تمہاری زندگی کو گھیر لے تاکہ تمہیں مراتب و درجات کی بلندی و رفعت نصیب ہو۔ حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص حضور ﷺ کی محبت سے پوری طرح سرشار ہوتا ہے اس کو فقر و فاقہ کا جلد پہنچنا اور اس پر دنیاوی آفات و بلاؤں اور سختیوں کا کثرت سے نازل ہونا ایک یقینی امر ہے کیونکہ منقول ہے کہ دنیا میں جن لوگوں کو سب سے زیادہ آفات شدائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ انبیاء ہیں ان کے بعد درجہ بدرجہ ان لوگوں کا نمبر آتا ہے جو عقیدہ و عمل کے اعتبار سے اعلیٰ مرتبہ کے ہوتے ہیں پس حضور ﷺ بھی انہی انبیاء میں سے تھے لہٰذا آپ ﷺ نے اس شخص پر واضح فرمایا کہ اگر واقعتا تم میری محبت رکھو گے تو میرے تئیں تمہاری محبت جس درجہ کی ہوگی اسی درجہ کی دنیاوی سختیوں اور پریشانیوں کا تمہیں سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ یہ اصول ہے المرء مع من احب (یعنی جو شخص جس کو دوست رکھتا ہے اسی جیسی حالت میں رہتا ہے) حضرت شیخ عبدالحق فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے اپنے اس ارشاد فقر کے لئے پاکھر تیار کرلو کے ذریعہ بطور کنایہ اس امر کی تلقین فرمائی کہ فقر و فاقہ کے وقت صبر کی راہ پر چلنے کے لئے تیار رہو کیونکہ یہ صبر ہی ہے جو فقر افلاس کی آفتوں اور صعوبتوں کو برداشت کرنے کی طاقت بہم پہنچاتا ہے، دینی و دنیاوی ہلاکت تباہی سے محفوظ رکھتا ہے، جزع و فزع اور شکوہ شکایت کی راہ سے دور رکھتا ہے اور غضب الٰہی سے بچاتا ہے حضرت شیخ آگے فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ فقر و فاقہ کی زندگی اختیار کئے بغیر اور حضور ﷺ کے طرز حیات پر عمل پیرا ہوئے بغیر آپ ﷺ کی محبت کا دعویٰ بالکل ناروا اور جھوٹ ہے۔ کیونکہ حقیقت میں اسوہ نبوی کی اتباع اور حضور ﷺ کی محبت دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں اور محبوب کی اتباع وپیروری کے بغیر محبت کا دعویٰ درست ہو ہی نہیں سکتا، ان المحب لمن یحب مطیع، تاہم واضح رہے کہ حب نبی کا یہ سب سے اعلی مرتبہ ہے کہ کسی مسلمان کا حضور ﷺ کے اسوہ حیات کی کامل اتباع کو اپنا شیوہ بنا لینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضور ﷺ کے تئیں دعویٰ محبت میں بالکل سچا اور درجہ کمال کا حامل ہے۔ اگرچہ محبت کی حقیقت و ماہیت یہ ہے کہ انسان کا کسی کی طرف اندر سے کھنچنا اور اس کے دل کا اس محبوب کی خوبیوں، اس کی ذات وصفات کی تحسین اور اس کی شکل و صورت اور عادات واطوار کی تعریف و توصیف سے معمور ہوجانا کہ وہ اپنے محبوب کو سب سے اچھا دیکھنے اور سب سے اچھا جاننے لگے۔ مگر جیسا کہ پہلے بتایا گیا تکمیل محبت کا انحصار، محبوب کی کامل اتباع اور پیروی پر ہے، اگر باطنی تعلق و محبت کے ساتھ عمل و اتباع کی دولت بھی نصیب ہو تو اصل اور کامل محبت وہی کہلائے گی ورنہ محض دل میں محبت کا ہونا اور زبان سے اس کا اعتراف و اقرار بھی کرنا، مگر عمل و اتباع کی راہ میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہونا، محبت کے ناقص ہونے کی دلیل ہے، جیسا کہ عمل کے بغیر ایمان درجہ تکمیل تک نہیں پہنچاتا۔
Top