مشکوٰۃ المصابیح - آرزو اور حرص کا بیان - حدیث نمبر 5145
وعن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال خصلتان من كانتا فيه كتبه الله شاكرا من نظر في دينه إلى من هو فوقه فاقتدى به ونظر في دنياه إلى من هو دونه فحمد الله على ما فضله الله عليه كتبه الله شاكرا صابرا . ومن نظر في دينه إلى من هو دونه ونظر في دنياه إلى من هو فوقه فأسف على ما فاته منه لم يكتبه الله شاكرا ولا صابرا . رواه الترمذي . وذكر حديث أبي سعيد أبشروا يا معشر صعاليك المهاجرين في باب بعد فضائل القرآن
صابر وشاکر کون ہے؟
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے نقل کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ دو خصلتیں ایسی ہیں کہ وہ جس شخص میں پائی جاتی ہیں اس کو اللہ تعالیٰ شاکر و صابر قرار دیتا ہے ایک یہ جب وہ شخص دینی معاملہ یعنی اچھے اعمال وغیرہ میں ایسے آدمی کو دیکھے جو (علم و عمل، طاعات و عبادات، قناعت و استقامت اور ریاضت و مجاہدہ کے اعتبار سے) اس سے برتر ہو تو اس کی اقتدا کرے ( یعنی اس میں دینی برتری و فضیلت سے اس طرح فیضان حاصل کرے کہ خود بھی علم وعمل کی راہ پر چلے، طاعات و عبادات کی محنت ومشقت اور برائیوں سے اجتناب پر صبر و استقامت اختیار کرے اور جو دینی و باطنی کمالات پہلے فوت ہوچکے ہیں ان پر تأسف کرے) اور دوسرے یہ کہ جب اپنی دنیا کے معاملہ میں اس آدمی کو دیکھے جو (مال و دولت اور جاہ ومنصب کے اعتبار سے) اس سے کمتر ہو تو اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور اس کا شکر ادا کرے کہ اس نے اس آدمی پر اس کو فضیلت و برتری بخشی ہے پس اللہ تعالیٰ اس شخص کو صابر و شاکر قرار دیتا ہے (یعنی شاکر تو اس لئے کہ اس نے دنیاوی اعتبار سے اپنے سے کمتر کو دیکھ کر اللہ کا شکر ادا کیا اور صابر اس لئے کہ اس نے دینی اعتبار سے اپنے سے برتر شخص کو دیکھ کر اس سے رہنمائی اور فیضان حاصل کیا) اور جو شخص ایسا، ہو کہ جب وہ کسی ایسے شخص کو دیکھے جو اس کے دینی (یعنی اعمال صالحہ وغیرہ) کے اعتبار سے اس سے کمتر درجہ کا ہو (تو اس کے تئیں رشک و حسد اور حرص و خواہش میں مبتلا ہوجائے اور) اس چیز (یعنی جاہ ومال پر رنج و غم کرے جس سے وہ محروم ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ شاکر قرار دیتا ہے اور نہ صابر۔ (ترمذی) اور حضرت ابوسعید ؓ کی روایت ابشرا یا معشر صعالیک المہاجرین الخ اس باب میں نقل کی جا چکی ہے جو فضائل قرآن کے باب کے بعد ہے۔

تشریح
موخرالذکر شخص کو نہ تو شاکر اور نہ صابر قرار دینے کا سبب یہ ہے کہ جن دو خصلتوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے کسی ایک صفت کو بھی اس نے اختیار نہیں کیا، بلکہ اس کے برخلاف اس نے اللہ کی ناشکری کی اور زبان اور دل دونوں سے جزع و فزع او شکوہ شکایت کا مرتکب ہوا۔ حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو صابر اور شاکر قرار دیتا ہے ( تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو کامل مومن بنا دیتا ہے۔ چناچہ اس آیت آیت (اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ ) 31۔ لقمان 31) سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ صابر و شاکر کا اطلاق اسی پر ہوتا ہے جو کامل مومن ہو، نیز ایک حدیث میں یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ ایمان کے دو نصف ہیں۔ اس کا ایک نصف صبر ہے اور ایک نصف شکر ہے گویا اپنے آپ کو برائیوں سے روکنا صبر سے تعبیر ہے اور اعضاء ظاہر کے ذریعہ طاعات کی بجا آواری شکر کے مفہوم میں ہے اور ظاہر ہے کہ جس بندے کی زندگی ان دونوں اجزاء تکمیل سے معمور ہو وہ کامل مومن ہوتا ہے۔
Top