مشکوٰۃ المصابیح - دکھلاوے اور ریاکاری کا بیان - حدیث نمبر 5180
وعن شداد بن أوس قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم الكيس من دان نفسه وعمل لما بعد الموت . والعاجز من أتبع نفسه هواها وتمنى على الله . رواه الترمذي وابن ماجه
دانا شخص وہی ہے جو خواہشات نفس کو احکام الٰہی کے تابع کر دے
حضرت شداد بن اوس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ عقلمند وبہادر شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو (اللہ تعالیٰ کے حکم و فیصلہ، تقدیر وقضا اور اس کی رضا و خوشنودی کے تئیں) جھکا دے اور فرمان الٰہی کا مطیع و فرمانبردار بنا دے اور اس اجر وثواب کے لئے اچھے عمل کرے جو موت کے بعد پائے گا۔ نیز احمق ونادان اور بزدل شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو خواہشات کے تابع بنا دے (یعنی نفس جن حرام و مشتبہ چیزوں اور دنیاوی لذات و مرغوبات کا خواہشمند ہو، ان کو اختیار کر کے گویا اپنے آپ کو خواہش نفس کا اسیر بنا دے اور گناہوں میں مبتلا ہونے، فرمان حق کے خلاف چلنے، عمل خیر اور توبہ و استغفار کی راہ اختیار نہ کرنے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے اس بات کا متمنی اور آرزو مند ہو کہ وہ اس سے راضی ہو، اس کو بخش دے اور اس کو جنت میں داخل کرے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

تشریح
نووی نے لکھا ہے کہ امام ترمذی (رح) نے اور دیگر علماء محدثین نے وضاحت کی ہے من دان نفسہ دراصل حاسبھا کے مفہوم میں ہے یعنی عقلمند وبہادر وہ شخص ہے جو اپنی دنیاوی زندگی میں اپنے قول وفعل اور اپنی حالت کا خود حساب کرے، پس اگر وہ دیکھے کہ اس کے اعمال و احوال اور کردار وگفتار پر نیکیوں کا غلبہ ہے تو اللہ کا شکر ادا کرے اور اگر اس کو برائیوں کا غلبہ معلوم ہو تو توبہ وانابت کے ذریعہ اپنی حالت سدھارنے کی طرف متوجہ ہو، برائیوں کا ازالہ کرے اور پچھلی زندگی میں جو عبادات و اعمال صالحہ فوت ہوگئے ہیں ان کا تدارک کرے قبل اس کے کہ آخرت کے سخت عذاب ومواخذہ میں گرفتار کیا جائے۔ چناچہ ایک روایت میں فرمایا گیا ہے حاسبوا انفسکم قبل ان تحاسبوا یعنی اپنے نفس کا احساب کرو قبل اس کے کہ آخرت میں تمہارا محاسبہ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے آیت (وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ) 59۔ الحشر 18) یعنی نفس کو یہ دیکھنا چاہئے کہ اس نے کل آخرت کے لئے آگے کیا بھیجا ہے۔ حدیث سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ دانا مومن وہ ہے جو اپنے اندر اتنی طاقت و مضبوطی رکھے کہ اس کا نفس اپنی خواہشات کے فریب میں مبتلا نہ کرسکے اور نادان مومن وہ ہے جو اس درجہ کمزور نا تو اں ہو کہ اس کا نفس اس کو اپنی خواہشات کا اسیر بنا لے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ گناہ و معصیت کی راہ کو ترک نہ کرنا، توبہ و استغفار اور عمل خیر کے ذریعہ اپنی زندگی کو پاکیزہ نہ بنانا اور اللہ و رسول کی مرضی کے خلاف چلنا اور پھر امید یہ (رکھنا کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت کے دروازے کھول دے گا اور دین ودنیا کی فلاح و کامیابی سے نوازے گا نیز زبان سے یہ کہتے رہنا کہ میرا رب تو بڑا رحیم و کریم ہے، وہ مجھے بخش ہی دے گا اور جنت میں پہنچا دے گا دراصل نفس کا ایک ایسا فریب ہے جس کے ذریعہ شیطان گمراہی سے نکلنے نہیں دینا چاہتا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت (ماغرک بربک الکریم)۔ اور فرمایا آیت (نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم) ایک موقع پر یوں واضح فرمایا کہ آیت ( اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ) 7۔ الاعراف 56) اور فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِيْنَ ھَاجَرُوْا وَجٰهَدُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اُولٰ ى ِكَ يَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰهِ وَاللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ) 2۔ البقرۃ 218)۔ ان آیتوں کا حاصل یہی ہے کہ عمل تو نہ کرنا، برائی کے راستہ کو تو نہ چھوڑنا اور اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار ہونا لا حاصل ہے۔ سیدھا راستہ بس یہی ہے کہ برائی کے راستہ کو چھوڑ دیا جائے، اعتقادی وعملی زندگی کو دینی و اخروی پاکیزگی و سلامتی کے سانچے میں ڈھال دیا جائے اور ہر عمل خیر کی راہ میں کوئی تقصیر و کوتاہی نہ کی جائے اور پھر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا امیدوار بھی رہے اور اس کے عذاب سے ڈرتا بھی رہے تو اس صورت میں رحمت الٰہی کا استحقاق نصیب ہوسکتا ہے۔ حضرت شیخ ابن عباد شاذلی (رح) نے لکھا ہے کہ عارف باللہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ اللہ کی رحمت کے تئیں وہ جھوٹی امید کہ جس پر ناروا اعتماد کر کے انسان عمل و عبادت کی راہ ترک کر دے اور وہ امید اس کو گناہ و معصیت کی زندگی کا بیباک راہرو بنا دے، حقیقت میں امید نہیں ہے بلکہ نفس کا فریب آرزو اور شیطان کا دھوکا ہے۔ حضرت معروف کرخی (رح) فرماتے ہیں۔ عمل کے بغیر جنت کی طلب گناہوں میں سے ایک گناہ ہے (خدا ترسی و پاکیزگی عمل کا ذریعہ وتعلق اختیار کئے بغیر شفاعت کی امید فریب کی ایک قسم ہے اور اس ذات کی رحمت کا امیدوار ہونا کہ جس کی اطاعت فرمانبرداری نہ کرے بڑی جہالت و حماقت ہے۔ حضرت حسن بصری (رح) نے فرمایا۔ اللہ کے بندو۔ ان باطل آرزوؤں اور جھوٹی امیدوں سے دور رہو جو حماقت کی وادی ہے اور جس میں لوگ گرے ہوئے ہیں اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ نے کسی بندے کو محض اس کی آرزوؤں کے سہارے نہ دنیا میں کامیابی و کامرانی سے نوازا ہے اور نہ آخرت کی خیر و فلاح کا مستحق گردانا ہے۔ حضرت عمرو بن منصور (رح) نے اپنے متعلقین میں سے ایک شخص کو لکھا تھا۔ نادان! تم اپنی عمر کی درازی کے آرزو مند ہو اور اللہ تعالیٰ سے اس بات کے امید وار ہو کہ وہ تمہارے بدعملیوں کے باوجود تمہیں اپنی رحمت سے نوازے؟ ہوش میں آؤ، یہ کیا ٹھنڈا لوہا کوٹنے کی سعی میں مصروف ہو۔
Top