مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 5235
وعن أم العلاء الأنصارية قالت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم والله لا أدري والله لا أدري وأنا رسول الله ما يفعل بي وبكم . رواه البخاري .
کسی کے اخروی انجام کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا
حضرت ام العلاء انصاریہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ باوجودیکہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن اللہ کی قسم یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ (بخاری)

تشریح
اس حدیث کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ہر شخص کی عاقبت کا معامہ غیر معلوم ہے کوئی نہیں جانتا کہ کون شخص کیا عمل کرے گا اور اس کا آخری انجام کیا ہوگا؟ تاہم واضح رہے کہ انبیاء اور رسولوں اور خصوصاً سید المرسلین ﷺ کی عاقبت کے بارے میں یہ بات نہیں کہی جاسکتی کیونکہ ان حضرات کے بارے میں ایسی دلائل قطعیہ منقول ہیں جو واضح طور پر بتاتی ہیں کہ انبیاء خصوصاً حضور ﷺ کی عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے۔ لہٰذا حضور ﷺ کے اس ارشاد کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا اور تمہارے ساتھ کیا معاملہ ہوگا۔ کو اس مخصوص پس منظر میں رکھ کر دیکھنا چاہئے جس میں یہ حدیث حضور ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی اور وہ یہ کہ ایک صحابی حضرت عثمان بن مظعون ؓ جو اونچے درجہ کے مہاجر صحابہ میں سے تھے، ان کا مدینہ میں انتقال ہوا اور خاص بات یہ کہ مدینہ میں مہاجرین میں سے سب سے پہلے جن صحابی کا انتقال ہوا ہے وہ یہی تھے چناچہ حضور ﷺ نے اپنی ذاتی نگرانی میں ان کی تجہیز وتکفین کا انتظام فرمایا ان کے جنازے کے ساتھ نہایت عزت و تکریم کا معاملہ کیا ان کی پیشانی پر بوسہ دیا اور پھر اپنے سامنے بقیع میں ان کو سپر خاک کرایا، اس موقع پر ایک خاتون، جو وہاں موجود تھیں اور حضرت عثمان ؓ کے تئیں حضور ﷺ کی یہ محبت و عنایات دیکھ رہی تھیں کہنے لگیں۔ عثمان تمہیں جنت مبارک ہو کہ تمہاری عاقبت و انجام بخیر ہے۔ اس وقت حضور ﷺ نے ان خاتون کو سرزنش کی اور مذکورہ حدیث ارشاد فرمائی۔ لہٰذا اس حدیث کا مقصد دراصل حضور ﷺ کے سامنے ایک غیر موزوں بات زبان سے نکالنے کی جرات و گستاخی پر بطریق مبالغہ سرزنش کرنا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات اس طرح بھی کہی جاسکتی ہے کہ حضور ﷺ نے جو یہ فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ میرے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا تو ان الفاظ سے آپ ﷺ کی مراد ان کے حقیقی معنی نہیں تھے بلکہ آپ ﷺ نے ان الفاظ کے ذریعہ بطور کنایہ یہ فرمایا کہ کسی دوسرے شخص کی عاقبت کے بارے میں کوئی یقینی بات کہنے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا خود میرا معاملہ یہ ہے کہ اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں اور میری عاقبت کا بخیر ہونا ایک یقینی امر ہے مگر چونکہ عاقبت کا معاملہ علم غیب سے تعلق رکھتا ہے اس لئے میں از راہ ادب اپنی عاقبت کے بارے میں بھی تصریح نہیں کرسکتا ہے اور یہ نہیں بتاسکتا کہ آخرت میں میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا۔ یا اس ارشاد گرامی کی مراد یہ ہے کہ اگرچہ میں اللہ کا رسول ہوں لیکن کسی کی عاقبت اور انجام کار کے بارے میں تفصیل کے ساتھ مجھے بھی کچھ معلوم نہیں ہے کہ کون شخص دنیا میں کس انجام کو پہنچے گا اور آخرت میں کس احوال سے دوچار ہوگا کیونکہ اس طرح کے احوال کا تعلق غیب سے ہے اور غیب کی تفصیلی باتین عالم الغیب (اللہ تعالیٰ ) کے سوا کسی کو معلوم نہیں۔ گو اجمالی طور پر اتنا ضرور معلوم ہے کہ انبیائے کرام (علیہم السلام) کی عاقبت بخیر ہے ملاعلی قاری نے اسی احتمال کو صحیح لکھا ہے۔ ایک احتمال یہ بھی بیان کیا جاتا ہے۔ کہ مذکورہ ارشاد سے حضور ﷺ کی مراد یہ تھی کہ مجھے یہ نہیں معلوم کہ میں اس دنیا سے کس طرح رخصت ہوں گا اور میری موت کن حالات میں واقع ہوگی، آیا اپنی موت سے مروں گا یا کوئی شخص مجھے قتل کر دے گا اسی طرح مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ جس طرح پچھلی امتوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا تھا اس طرح تم پر بھی کوئی ہلاکت خیز عذاب نازل ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور زیادہ صحیح بات یہ ہے کہ حضور ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اس آیت کریمہ (لِّيَغْفِرَ لَكَ اللّٰهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْ بِكَ وَمَا تَاَخَّرَ ) 48۔ الفتح 2) کے نازل ہونے سے پہلے کا ہے، چناچہ پہ تو عاقبت کے بارے میں ابہام تھا کہ کوئی یقینی بات نہیں کہی جاسکتی تھی۔ مگر اس آیت کے نازل ہونے کے بعد یہ ابہام دور ہوگیا اور یقین کے ساتھ یہ معلوم ہوگیا کہ آپ ﷺ کی عاقبت بخیر ہے۔
Top