مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 5237
وعن زينب بنت جحش أن رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل يوما فزعا يقول لا إله إلا الله ويل للعرب من شر قد اقترب فتح اليوم من ردم يأجوج ومأجوج مثل هذه وحلق بأصبعيه الإبهام والتي تليها . قالت زينب فقلت يا رسول الله أفنهلك وفينا الصالحون ؟ قال نعم إذا كثر الخبث . متفق عليه .
فسق وفجور کی کثرت پوری قوم کے لئے موجب ہلاکت ہے
حضرت زینب بنت جحش ؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول کریم ﷺ ان کے ہاں ایسی حالت میں تشریف لائے کہ جیسے بہت گھبرائے ہوئے ہیں پھر فرمانے لگے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود عبادت کے لائق نہیں۔ افسوس صد افسوس عرب کے اس شروفتنہ پر جو اپنی ہلاکت آفرینی کے ساتھ قریب آپہنچا ہے۔ آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اس قدر سوراخ ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر آپ ﷺ نے انگوٹھے اور برابر والی انگلی کے ذریعہ حلقہ بنایا، حضرت زینب ؓ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہم اس صورت میں بھی ہلاک کر دئیے جائیں گے جب کہ ہمارے درمیان صالح وپاکباز لوگ موجود ہوں گے؟ کیا ہمارے درمیان اللہ کے نیک بندوں کے وجود کی برکت ان فتنوں کے پھیلنے اور آفات وبلاؤں کے نازل ہونے میں رکاوٹ نہیں بنے گی؟ حضور ﷺ نے فرمایا ہاں تمہارے درمیان علماء اور بزرگارن دین کی موجودگی کے باوجود تمہیں ہلاکت و تباہی میں مبتلا کیا جائے گا جب کہ فسق وفجور کی کثرت ہوگی (یعنی جب معاشرہ میں برائیاں بہت پھیل جائیں گی اور ہر طرف فسق وفجور کا دور دورہ ہوگا تو ان برائیوں اور فسق وفجور کے سبب نازل ہونے والے فتنہ وآلام اور آفات کو صلحاء اور بزرگوں کی موجودگی اور ان کی برکت بھی نہیں روک سکے گی۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
شر سے حضور ﷺ کی مراد اس فتنہ و فساد اور قتل و قتال کی طرف اشارہ کرنا مقصود تھا جس کی ابتداء مستقبل میں ہونے والی تھی اور جس کا شکار سب سے پہلے اہل عرب بننے والے تھے، چناچہ قلب نبوت نے اہل اسلام کو افتراق و انتشار میں مبتلا کرنے والے جن واقعات کا بہت پہلے ادراک کرلیا تھا اور مذکورہ ارشاد کے ذریعہ گویا ان کے بارے میں پیش گوئی فرما دی تھی ان کی ابتداء خلیفہ ثالث حضرت عثمان بن عفان ؓ کے سانحہ شہادت سے ہوئی اور جن کا سلسلہ کسی نہ کسی صورت میں اب تک جاری ہے۔ بعض حضرات نے یہ مراد بیان کی ہے کہ حضور ﷺ نے گویا اس طرف اشارہ فرمایا کہ جب اہل عرب کو اسلام کی بڑھتی ہوئی طاقت کے سبب دشمنوں کے مقابلہ پر فتوح حاصل ہوں گی، دوسرے ملکوں پر غلبہ و اقتدار حاصل ہوگا اور مال و دولت کی ریل پیل ہوگی تو اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوگا کہ لوگوں کے خلوص وللہیت میں کمی آجائے گی، حکومت و اقتدار اور مال و زر سے رغب و محبت پیدا ہوجائے گی، دنیا طلبی وجاہ پسندی اور خود غرضی کا عفریب باہمی مخالفت ومخاصمت اور افتراق و انتشار کے ذریعہ پوری ملت کو متاثر کر دے گا۔ حلقہ بنایا یعنی آپ ﷺ نے اپنی انگلیوں کے ذریعہ حلقہ بنا کر دکھایا کہ اس دیوار میں آج تک کبھی کوئی سوراخ نہیں ہوا تھا۔ لیکن آج اس میں اتنا بڑا سوراخ ہوگیا ہے جتنا کہ ان دونوں انگلیوں کے ذریعہ بنایا گیا حلقہ ہے۔ واضح رہے کہ اس دیوار میں سوراخ کا ہوجانا قرب قیامت کی علامات میں سے ہے جس طرح کہ عرب اور اہل عرب میں فتنہ و فساد کا بیج پڑجانا اور برائیوں کے پھیل جانا بھی قیامت کے قریب آجانے کی ایک دلیل ہے اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ حضور ﷺ نے یاجوج ماجوج کی دیوار میں سوارخ ہوجانے کی بات کہہ کر گویا اس علاقہ سے اٹھنے والے ایک عظیم فتنہ اور اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کو پہنچنے والے سخت نقصان کی طرف اشارہ کیا، چناچہ تاریخ کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ حضور ﷺ نے جس فتنہ کی طرف اشارہ فرمایا تھا وہ چنگیزیت کی صورت میں اسی علاقہ سے اٹھا اور جس نے بڑی بڑی اسلامی حکومتوں کو نقصان پہنچایا یہاں تک کہ ہلاکو خان کی سربراہی میں تاتاری ترکوں کے سیلاب نے اسلامی خلافت کو بہا ڈالا، خلیفہ معتصم باللہ کو قتل کیا بغداد کو لوٹ کر تباہ و تاراج کیا اور لاکھوں مسلمانوں کا خون بہایا اور پوری ملت اسلامیہ کو بڑی بڑی جہادوں سے دوچار کیا۔ لفظ خبث خ اور ب کے زبر کے ساتھ فسق وفجور اور کفر شرک کے معنی میں ہے اور بعض حضرات نے کہا ہے کہ اس کے معنی بدکاری زنا کے ہیں حدیث کے آخری جملہ کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی جگہ آگ لگتی ہے بھڑک اٹھتی ہے تو پھر وہ ہر ایک چیز کو جلا ڈالتی ہے کیا خشک اور کیا تر، ہر ایک کو بھسم کردیتی ہے۔ حلال اور حرام، پاک اور ناپاک جو بھی چیز اس کے شعلوں کی لپیٹ میں آتی ہے جل کر خاک ہوجاتی ہے، مومن اور کافر، موافق اور مخالف کسی کے درمیان فرق نہیں کرتی، جو شخص بھی اس کی زد میں آجاتا ہے راکھ کا ڈھیر بن جاتا ہے اسی طرح عذاب الٰہی کا معاملہ ہے کہ جب کسی ملک میں، کسی علاقہ میں اور روئے زمین کے کسی حصہ پر برائیوں کا دور دورہ ہوجاتا ہے، بدکاریاں عام ہوجاتی ہیں فواحش کی کثرت ہوجاتی ہے اور فسق وفجور کا غلبہ ہوجاتا ہے اور اس کے سبب وہاں کے لوگوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو پھر کسی کی کوئی تخصیص نہیں رہ جاتی، بدکار اور سرکش لوگ تو تباہ و برباد ہوتے ہیں نیکو کار وپاکباز لوگ بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں یہ اور بات ہے کہ جب قیامت میں ساری مخلوق کو دوبارہ آتھایا جائے گا تو اس وقت ہر شخص کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق ہی سلوک ہوگا۔ ایک نسخے میں لفظ خ کے پیش اور ب کے جزم کے ساتھ یعنی خبت منقول ہے جس کے معنی فواحش اور فسوق کے ہیں، ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔
Top