مشکوٰۃ المصابیح - لوگوں میں تغیر وتبدل کا بیان - حدیث نمبر 5246
وعن أبي بن كعب قال كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا ذهب ثلثا الليل قام فقال يا أيها الناس اذكروا الله اذكروا الله جاءت الراجفة تتبعها الرادفة جاء الموت بما فيه جاء الموت بما فيه . رواه الترمذي .
ذکر اللہ کی نصیحت وتلقین
حضرت ابی بن کعب ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب دو تہائی رات گزر جاتی تو نبی کریم ﷺ تہجد کی نماز کے لئے اٹھتے اور فرماتے۔ لوگو اللہ کو اس کی وحدانیت ذات اور اس کی تمام صفات کے ساتھ یاد کرو، اللہ کو (یعنی اس کے عذاب وثواب کو) یاد کرو (تاکہ تم اللہ کے تئیں خوف وامید کے درمیان رہو۔ اور ان لوگوں میں شمار کئے جاؤ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آیت (تتجافی جنوبہم عن المضاجع یدعون ربہم خوفا وطمعا)۔ زلزلہ آیا ہی چاہتا ہے (یعنی پہلا صور پھونکا ہی جانے والا ہے جس کے ساتھ ہی سب مرجائیں گے) اس کے پیچھے پیچھے وہ بھی آ رہا ہے جو پیچھے آنے والا ہے (یعنی پہلے صور کے بعد دوسرا صور بھی بس پھونکا ہی جانے والا ہے جس کی آواز پر سب دوبارہ زندہ ہوجائیں گے اور اپنی قبروں سے اٹھ کر میدان حشر میں جمع ہوجائیں گے۔ غرض یہ کہ ان الفاظ سے حضور ﷺ کا مقصد قیامت کی یاد دلانا اور آخرت کی طرف متوجہ کرنا ہے تاکہ یہ چیز طاعات و عبادات اور ذکر اللہ میں مشغول رکھنے کا باعث ہو)۔ موت اپنے سے وابستہ تمام احوال کے ساتھ آیا ہی چاہتی ہے، موت اپنے سے وابستہ تمام احوال کے ساتھ آیا ہی چاہتی ہے (ان الفاظ کا مقصد بھی یہ تنبیہ کرنا ہے کہ غفلت چھوڑ کر ہوشیار ہوجاؤ، تمہاری موت تمہارے سر پر تیار کھڑی ہے اور ان تمام چیزوں کے ساتھ جو کہ اس سے پہلے اور اس کے بعد واقع ہونے والی ہیں، آیا ہی چاہتی ہے۔ (ترمذی)

تشریح
لوگو کے ذریعہ حضور ﷺ نے ان لوگوں کو مخاطب فرمایا جو چین کی نیند سو رہے تھے اور تہجد کی نماز اور ذکر اللہ سے غافل تھے، چناچہ آپ ﷺ نے ان کو بیدار کیا تاکہ وہ لوگ ذکر اللہ اور تہجد کی نماز میں مشغول ہو۔ پس اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ آخر تہائی رات میں اٹھنا اور ذکر اللہ ونوافل میں مشغول ہونا مستحب مؤ کدہ ہے، ایک نسخے میں اذکروا اللہ کے الفاظ تین مرتبہ نقل کئے گئے ہیں گویا تیسری مرتبہ کے ان الفاظ کا مطلب یہ تھا کہ اللہ کی نعمتوں، اس کی عطا کی ہوئی راحتوں اور اس کی طرف سے پیش آنے والے ضرر وآلام کو یاد کرو۔ جاءت الراجفہ (زلزلہ آیا ہی چاہتا ہے) میں قرآن کریم کی اس آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ آیت (يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ ) 79۔ النازعات 6) نیز اس جملے میں جاءت ماضی کا صیغہ اس زلزلے کے آنے (یعنی صورت پھونکے جانے) کے یقینی امر ہونے کی بناء پر استعمال کیا گیا ہے اور مفہوم وہی ہے جو ترجمے کے ذریعے ظاہر کیا گیا ہے یعنی وہ وقت بس آیا ہی چاہتا ہے۔ لہٰذا موقع کو غنیمت جانو اور طاعات و عبادات کی طرف سبقت کر کے ایسی تیاری کرلو کہ اس کے احوال آسانی کے ساتھ گزر جائیں۔ اس ارشاد گرامی میں ایک لطیف نکتہ بھی پوشیدہ ہے اور وہ یہ کہ سونا، درحقیت موت کا حکم رکھتا ہے جو پہلے صور پھونکے جانے کا اثر ہے اور بھاگنا دوسری مرتبہ صورت پھونکے جانے کے حکم میں ہے۔ لہٰذا یہ دونوں چیزیں یعنی سونا اور جاگنا گویا قیامت کی علامت کی طرف اشارہ کرتی ہیں اور قیامت کی یاد دلانے کا باعث ہیں۔
Top