مشکوٰۃ المصابیح - امر بالمعروف کا بیان - حدیث نمبر 5014
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه وسلم لما مر بالحجر قال لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين أن يصيبكم ما أصابهم ثم قنع رأسه وأسرع السير حتى اجتاز الوادي . متفق عليه
قوم ثمود کے علاقہ سے گزرتے ہوئے آنحضرت ﷺ کی صحابہ کو تلقین
حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ جب مقام حجر سے گزرے تو (صحابہ ؓ سے) فرمایا کہ تم ان لوگوں کے مکانات (کے کھنڈرات) میں نہ گھسنا جنہوں نے (کفر اختیار کر کے اور اپنی طرف بھیجے گئے اللہ کے پیغمبر (علیہم السلام) کو جھٹلا کر) خود اپنے آپ پر ظلم کیا ہے الاّ یہ کہ تم رونے والے ہو (یعنی اگر تم ان کھنڈرات کی صورت میں اس بدنصیب قوم کا المناک انجام دیکھ کر اور ان لوگوں کے سیاہ کارناموں کو یاد کر کے عبرت حاصل کرنا چاہو تو اس جگہ کو دیکھ سکتے ہو نیز تم اس جگہ سے غفلت و لاپرواہی کے ساتھ نہ گزرو) کہ مبادا تم پر بھی وہی مصیبت نازل ہوجائے جو ان پر نازل ہوئی تھی (کیونکہ ایسی جگہوں سے غفلت و بےپروائی کے ساتھ گزرنا اور عبرت نہ پکڑنا قساوت قلبی اور خوف اللہ کے فقدان کی علامت ہے اور یہ چیز عذاب الٰہی کے نازل ہونے کا باعث بن سکتی ہے، یا یہ مراد ہے کہ تم یہاں اللہ کا خوف کھاؤ اور اور عبرت پکڑو کہ مبادا تم سے بھی وہی اعمال صادر ہونے لگیں جو اس قوم کے لوگوں کا شیوہ تھے اور پھر تمہیں بھی سزا بھگتنی پڑے) اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے چادر سے اپنا سر ڈھانک لیا اور تیز تیز چل کر اس علاقہ سے گزر گئے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حجر اس جگہ کا نام ہے جو مشہور پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کی قوم ثمود کا مسکن تھی! حجاز کے شمالی علاقہ میں، جس کا نام مدین ہے، ایک تاریخی وادی ہے جس کا نام وادی قری ہے اسی وادی میں تبوک سے تقریبا چار میل کے فاصلہ پر یہ جگہ واقع ہے یہاں قوم ثمود کی بستیاں تھیں، اس قوم نے جب طغیانی و سرکشی میں حد سے تجاوز کیا اور اپنے پیغمبر حضرت صالح (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے راستہ پر چلنے کے بجائے ان کو جھٹلایا، ان کو سخت تکلیفیں پہنچائیں اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کردیا تو اس قوم پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور ان کی ساری بستیاں تباہ کردی گئیں، ان بستیوں کے آثار و کھنڈرات اب بھی موجود ہیں اور زبان حال سے عبرت پذیر لوگوں کو قوموں کے عروج وزوال کی داستان سناتے ہیں۔ جب آنحضرت ﷺ غزوہ کے لئے تبوک جا رہے تھے یا غزوہ سے فارغ ہو کر وہاں سے واپس تشریف لا رہے تھے تو راستہ میں آپ ﷺ کا گزر اسی علاقہ سے ہوا، چناچہ اس حدیث کا تعلق اسی وقت سے ہے۔ آنحضرت ﷺ کا اپنے سر پر چادر ڈال کر اس جگہ سے جلدی گزرنا جیسا کہ کسی جگہ سے کوئی خوفزدہ شخص جلد سے جلد گزر جاتا ہے، اس وجہ سے تھا تاکہ آپ کی نظر مبارک اس تباہ شدہ قوم کے مکانات کھنڈرات پر نہ پڑے۔ اور حقیقت میں آپ کا یہ عمل مسلمانوں کی تعلیم کے واسطے تھا تاکہ وہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں، چناچہ آپ نے پہلے تو قول کے ذریعہ لوگوں کو اس امر کی طرف متوجہ کیا اور پھر از راہ تاکید اپنے فعل کے ذریعہ بھی توجہ دلائی۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ کا وہاں سے اس طرح گزرنا اس بناء پر تھا کہ خود آپ ﷺ پر خوف اللہ کا نہایت غلبہ رہتا تھا اور عذاب الٰہی کے آثار آپ ﷺ کو سب سے زیادہ لرزاں کردیا کرتے تھے جیسا کہ ایک ارشاد میں فرمایا۔ انا اعلمکم باللہ واخشاکم۔ میں تم سب سے زیادہ اللہ کا علم رکھتا ہوں اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ ایک روایت میں یہ بھی منقول ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس جگہ صحابہ ؓ کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ اس جگہ نہ تو کچھ کھائیں اور نہ وہاں کا پانی پئیں۔ بہرحال حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ کے سرکش بندوں اور ظالموں کے مکانات اور ان کی جگہوں میں نہ تو رہائش اختیار کی جائے اور نہ ان کے علاقوں کو اپنا وطن بنایا جائے۔
Top