مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5186
توکل اور صبر کا بیان
لغت میں وکل اوکول کا لفظ آتا ہے جس کے معنی ہیں سونپ دینا، سپرد کردینا، کسی پر بھروسہ کر کے کام چھوڑ دینا اس کا اسم وکالت اور رکالت ہے اسی لفظ سے توکل نکلا ہے جس کے معنی اپنے عجز و بیچارگی کو ظاہر کرنے اور دوسرے پر اعتماد و بھروسہ کرنے ہیں، اس کا اسم تکلان ہے، اصطلاح شریعت میں توکل اس کو کہتے ہیں کہ بندہ اپنے معاملہ و کام کو اللہ کے سپرد کر دے اپنی تدبیر وسعی کو ترک کر دے اور اپنی ذاتی طاقت وقدرت سے بےپرواہ ہو کر تقدیر اور رضائے الٰہی پر کامل اعتماد کرے، یعنی اس بات پر یقین رکھے کہ اپنی تدبیر وسعی اور ذاتی طاقت وقدرت، اللہ کی مشیت اور اس کے فیصلہ کو بدل نہیں سکتا، جو لکھا ہی نہیں گیا وہ رونما نہیں ہوسکتا۔ یوں تو توکل کا تعلق تمام امور اور معاملات پر ہوتا ہے لیکن اکثر اس کا استعمال رزق کے بارے میں ہوتا ہے۔ اور بات بھی یہی ہے کہ توکل کا جو اصل مفہوم ہے وہ اس بات پر اعتماد و بھروسہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ بندوں کے رزق کا ضامن ہے۔ حصول معاش کے لئے جائز و حلال ظاہری وسائل و ذرائع کو ترک کرنا گو توکل کے صحیح ہونے کی شرط نہیں ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ اصل اعتماد و بھروسہ ان وسائل و ذرائع پر نہ ہو۔ چناچہ توکل کا تعلق اصل میں دل سے ہے اگر دل میں حق تعالیٰ کے ضامن ہونے کا یقین جاگزین ہوگیا تو توکل کا مفہوم پورا ہوجائے گا۔ گویا اعضاء عمل کو معطل کردینا اور ہاتھ پاؤں ڈال کر اپاہج بن جانا توکل کے صحیح ہونے کے لئے لازم نہیں ہوگا اور نہ حصول معاش کے لئے ظاہری تدبیر دستی کرنا اس کے منافی ہوگا رہی یہ بات کہ بعض زاہدان طریقت اور درویش صفت طالبان معرفت حصول معاش کے ظہری اسباب و وسائل کو ترک کردیتے ہیں تو ان کا وہ عمل محض ایک استثنائی حیثیت رکھتا ہے اور اس بات سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مقام توکل ثابت ہوجائے نفس زیادہ سے زیادہ ریاضت و مجاہدہ میں مشغول رہے اور نظر امید اسباب و ذرائع سے منقطع ہوجائے، نیز اس امر پر کامل یقین حاصل ہوجائے کہ ظاہری اسباب و ذرائع رزق پہنچنے کے لئے شرط کا درجہ نہیں رکھتے۔ بعض حضرات نے توکل کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ بندہ کا حق اللہ تعالیٰ کی رزاقیت پر اعتماد و یقین کے سبب حصول معاش کے اسباب و ذرائع اور کسب وعمل کی پابندیوں سے مطلق آزاد ہوجانا، لیکن یہ توکل کا وہ مقام ہے جو ابتدائی حالت میں اختیار کیا جاتا ہے یا آزاد ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ بندہ ان اسباب و وسائلہ اور کسب وعمل، رزق پہنچنے کے لئے حقیقی موثر ومسبب ہیں، چناچہ جو بندہ توکل کے آخری مرحلہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس مقام کا منتہی ہوتا ہے اس کا اسباب و وسائل اور کسب وعمل کو اختیار کرنا، اس کے حق میں توکل کے منافی نہیں ہوتا، اس کو اللہ کی رزاقیت پر کامل یقین و اعتماد اس وقت بھی حاصل رہتا ہے جب وہ اپنی روزی کے لئے اسباب و وسائل اور کسب وعمل میں مشغول ہوتا ہے اور اس وقت بھی اس کے اس یقین و اعتماد میں ذرہ برابر بھی رخنہ نہیں پڑتا جب وہ ان چیزوں کو بالکل ترک کردیتا ہے، مثلا اگر وہ منتہی کھجور کا پودا لگائے اور خرق عادت کے طور پر (یعنی خلاف عادت) وہ پودا اسی لمحہ بارآور ہوجائے تو اللہ تعالیٰ کی قدرت صناعی پر اس کا یقین و اعتماد اس صورت میں اور اس صورت میں کہ کھجور کا پودا وہ عادت ومحمول کے مطابق کئی سال کے بعد پھل لائے یکساں ہوتا ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے دنیاوی اسباب و وسائل کے ذریعہ اور ظاہری عوامل و مسببات کی تربیت کے ساتھ وجود پذیر ہوتی ہے تو اس صورت میں صانع کی کمال قدرت کا مشاہدہ زیادہ یقین واعتمال اور زیادہ پر تاثیر انداز میں ہوتا ہے کیونکہ اسباب کے بغیر یعنی خرق عادت کے طور پر جو چیز سامنے آتی ہے اس میں محض وہی ایک فعل ہوتا ہے، جب کہ ظاہری اسباب و وسائل کے ذریعہ ظاہر ہونے والی چیز کتنے ہی مضبوط ومربوط افعال و حالات اور کتنے ہی محکم احکام و قوانین قدرت کا مظہر ہوتی ہے، علاوہ ازیں ایک بات یہ بھی مد نظر رہنی چاہئے کہ اسباب و وسائل کو ترک کردینا گویا ان چیزوں کو معطل و بیکار بنادینا ہے جن کو حق تعالیٰ نے انسان ہی کے لئے پیدا کیا ہے اور جن کو اختیار کرنا منشاء قدرت کے خلاف نہیں ہے۔ عنوان باب کا دوسرا جزء صبر ہے لغت میں صبر کے معنی ہیں رکنا منع کرنا، نفس کو کسی چیز سے باز رکھنا، فارسی میں اس کو شیکیبائی کہتے ہیں اور اصطلاح شریعت میں صبر اس کو کہتے ہیں کہ نیکی اور برائی کے درمیان کشمکش کے وقت اپنے نفس کو اس بات پر مجبور کیا جائے کہ وہ نیک کو اختیار کرے اور برائی سے باز رہے۔ حضرت شیخ نجم الدین کبریٰ فرماتے ہیں کہ صبر کا مفہوم ہے ریاضت و مجاہدہ کے ذریعہ حظوظ نفس کے جال سے باہر آنا اور نفس کو اس کی محبوب و مرغوب چیزوں سے باز رکھنے پر کاربند رہنا۔ عوارف میں لکھا ہے صبر کی جو اقسام ہیں ان میں سب سے اعلیٰ قسم کا وہ صبر ہے جو اللہ تعالیٰ کے تئیں کیا جائے بایں طور کہ اس کی طرف متوجہ وانابت، صدق و اخلاص کے ساتھ ہو، اس کی ذات صفات اور کمال قدرت میں استغراق ومراقبہ دوامی ہو اور نفس کی تمام خواہشات و خیالات کو یکسر منقطع کردیا جائے۔ نیز بیان کیا کہ۔ صبر فرض بھی ہے اور نفل بھی، فرض صبر تو وہی ہے جو فرائض کی ادائیگی اور حرام چیزوں کے ترک کرنے پر اختیار کرنا پڑتا ہے اور نفل صبر کی جو صورتیں ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں۔ (١) فقر و افلاس اور شدائد وآلام پر صبر کرنا۔ (٢) کوئی صدمہ و تکلیف پہنچنے پر صبر کرنا (٣) اپنی مصیبتوں اور پریشانیوں کو چھپانا۔ (٤) شکوہ و شکایت سے اجتناب کرنا۔ (٥) باطنی احوال و کر امات کو چھپانا۔ واضح رہے کہ فرض اور نفل دونوں طرح صبر کی بہت اقسام اور صورتیں ہیں اور ظاہر ہے کہ ایسے لوگ بہت ہیں جو صبر کی تمام ہی اقسام پر عامل وکاربند نہیں رہ سکتے جیسا کہ بیان کیا گیا۔ اگرچہ صبر کی بہت اقسام ہیں اور ان کا اطلاق بہت سی صورتوں پر ہوتا ہے مگر عام طور پر اس کا اطلاق خصوصیت سے مصائب وآفات اور ناگوار وناپسندیدہ امور کو انگیز کرنے پر ہوتا ہے، جیسا کہ شکر ایک وسیع المفہوم لفظ ہے اور اپنے اطلاق کے اعتبار سے اس کی بہت سی قسمیں ہیں مگر خاص طور پر اس کا استعمال حصول نعمت ورزق کی صورت میں ہوتا ہے۔
Top