مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5191
وعن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم المؤمن القوي خير وأحب إلى الله من المؤمن الضعيف وفي كل خير احرص على ما ينفعك واستعن بالله ولاتعجز وإن أصابك شيء فلا تقل لو أني فعلت كان كذا وكذا ولكن قل قدر الله وما شاء فعل فإن لو تفتح عمل الشيطان . رواه مسلم
کچھ خاص ہدایتیں
حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ قوی مسلمان، ضعیف مسلمان سے بہتر اور اللہ کے نزدیک زیادہ پسندیدہ ہے (یعنی جو مسلمان اللہ کی ذات وصفات کے تئیں ایمان و اعتماد میں مضبوط ہوتا ہے اس پر پختگی کے ساتھ توکل و اعتماد رکھتا ہے ہر حالت میں نیکیاں وبھلائیاں اس کا مقصود ہوتی ہیں اور اللہ کی راہ میں جہاد وایثار کرتا ہے۔ یا یہ کہ جو مسلمان لوگوں کی صحبت وہم نشینی اور ان کی طرف سے پیش آنے والی ایذاء و تکلیف پر صبر کرتا ہے، مخلوق اللہ کی ہدایت کے لئے کوشش کرتا ہے اور تقریر وتحریری اور درس وتعلیم کے ذریعہ خیر و بھلائی پھیلانے میں مصروف رہتا ہے وہ اس مسلمان سے کہیں زیادہ بہتر اور اللہ کے نزدیک کہیں زیادہ محبوب و پسندیدہ ہے جو ان صفات میں اس کا ہم پلہ نہیں ہوتا اور ہر مسلمان خواہ وہ قوی ہو یا ضعیف اپنے اندر نیکی و بھلائی رکھتا ہے۔ (یعنی کوئی مسلمان نیک صفات سے خالی نہیں ہوتا ہر شخص میں کوئی نہ کوئی خوبی ضرور ہوتی ہے، کیونکہ تمام نیکیوں اور بھلائیوں کا اصل سرچشمہ بنیادی ایمان ہے اور بنیادی ایمان ہر مسلمان میں ہوتا ہے) جو چیز تمہیں دین وآخرت کے اعتبار سے نفع پہنچانے والی ہو اس کی حرص رکھو، اللہ تعالیٰ سے نیک عمل کرنے کی مدد و توفیق طلب کرو اور اس طلب مدد و توفیق سے عاجز نہ ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر پوری طرح قادر ہے کہ تمہیں اپنی طاعت و عبادت کی توفیق عطا فرمائے بشرطیکہ تم اس کی استعانت پر سیدھی طرح قائم رہو۔ اور بعض حضرات نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تم اس چیز پر عمل کرنے سے عاجز نہ رہو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے۔ اور ان کو ترک نہ کرو۔ نیز اگر تمہیں دین و دنیا کی کوئی مصیبت وآفت پہنچے تو یوں نہ کہو اگر میں اس طرح کرتا تو ایسا ہوتا بلکہ زبان قال یا زبان حال سے یہ کہو کہ اللہ تعالیٰ نے یہی مقدر کیا تھا۔ لہٰذا جو کچھ بھی پیش آیا ہے قضاء وقدر الٰہی کے مطابق ہی پیش آیا ہے اور اللہ جو کچھ چاہتا ہے کرتا ہے۔ اور یہ اس لئے کہ اگر کا لفظ جب کسی چیز پر حسرت و پریشانی کے اظہار، تقدیر الٰہی کے ساتھ معارضہ و مقابلہ اور اپنی قوت و تدبیر پر اعتماد کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے تو شیطان کے عمل دخل کا دروازہ کھول دیتا ہے اور دل میں یہ غلط وسوسہ اور خیال سما جاتا ہے کہ ہر کام کا نتیجہ ہماری ہی تدبیر سے نکلتا ہے تقدیر الٰہی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ (مسلم)

تشریح
یہ کہنا کہ میں اگر فلاں تدبیر کرلیتا اور یہ کام اس طرح کرلیتا تو میں فلاں نقصان اور مصیبت سے بچ جاتا۔ اس لئے ممنوع ہے کہ ایسا کہنا بالکل لاحاصل ہے اور اس کا کوئی فائدہ نہیں جو چیز جس طرح پیش آتی ہے وہ یوں ہی نہیں، بلکہ اللہ کی مشیت اور اس کے حکم وفیصہ کے مطابق پیش آتی ہے۔ جس کو تقدیر کا لکھا کہ آجاتا ہے، جیسا کہ قرآن میں فرمایا گیا ہے۔ آیت (قل لن یصیبنا الا ماکتب اللہ لنا) (کہہ دو کہ ہمیں صرف وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے لکھ دیا ہے) لہٰذا لو یعنی اگر کے لفظ کی ممانعت کا تعلق ایسی بات سے ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو اور جو تقدیر الٰہی کے معارض ثابت ہوتی ہے تاہم یہ واضح رہے کہ مذکورہ ممانعت نہی تنزیہی کے طور پر ہے نہ کہ نہی تحریمی کے طور پر! نیز اگر اس لفظ کا استعمال کسی ایسے جملہ میں ہو کہ جس کا مقصد کسی طاعت و عبادت کے فوت ہوجانے پر اظہار تاسف و حسرت سے ہو یا اس عبادت وطاعت سے اس معذوری ومجبوری کے اظہار و افسوس کے تئیں ہو تو کوئی مضائقہ نہیں۔ اور مختلف احادیث میں جو یہ لفظ منقول ہوا ہے وہ اسی مفہوم پر محمول کیا جاتا ہے، بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عبادت وطاعت کے فوت ہوجانے پر اظہار تاسف کرنا ثواب کا باعث بھی ہے اور اس کو ان چیزوں میں شمار کیا جانا ہی لائق ہے جو مستحب ہیں۔ چناچہ امام رازی (رح) نے اپنی کتاب مشیخت میں ابی عمرو سے نقل کیا ہے کہ جس شخص نے اپنی کسی دنیاوی چیز کے فوت وضائع ہوجانے پر تاسف کیا تو وہ ایک ہزار سال کی مسافت کے بقدر دوزخ کے قریب ہوجاتا ہے اور جس شخص نے اپنے کسی دینی عمل اور کسی اخروی چیز کے فوت وضائع ہوجانے پر تاسف کیا تو وہ ایک ہزار سال کی مسافت کے بقدر جنت کے قریب ہوجاتا ہے۔
Top