مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5196
وعن سعد قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من سعادة ابن آدم رضاه بما قضى الله له ومن شقاوة ابن آدم تركه استخارة الله ومن شقاوة ابن آدم سخطه بما قضى الله له . رواه أحمد والترمذي وقال هذا حديث غريب .
انسان کی نیک بختی اور بدبختی
حضرت سعد ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ ابن آدم (انسان) کی یک بختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے مقدر میں جو کچھ لکھ دیا ہے وہ اس پر راضی رہے اور ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی کو مانگنا چھوڑ دے، نیز ابن آدم کی بدبختی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ اس کے مقدر میں لکھ دیا ہے وہ اس سے ناخوش و ناراض ہو۔ اس روایت کو احمدوترمذی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
حدیث کے پہلے جزو کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شقاوت و بھلائی اور اس کی نیک بختی کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی مانگے اس کے آگے دس سوال دراز کرے اور اس کی بارگاہ کبریائی میں اپنی عرض ومناجات پیش کرے اور پھر اپنی تقدیر وقسمت پر بہر صورت راضی رہے اور یہ یقین رکھے کہ میرے ساتھ جو کچھ بھی پیش آیا ہے، یا جو کچھ بھی پیش آنے والا ہے وہ سب اللہ کے حکم و فیصلہ کے مطابق ہے جو اس نے میرے مقدر میں لکھ دیا ہے اور جو ہر اعتبار سے میرے لئے بہتر ہے۔ اگرچہ اللہ سے خیر و بھلائی مانگنے کی بات انسان کی نیک بختی کے ضمن میں نقل نہیں کی گئی ہے۔ لیکن بعد کی عبارت کو کہ جس میں انسان کی بدبختی کا ذکر کیا گیا ہے مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ مراد یہی ہے۔ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی مانگنے سے اجتناب کرنے سے انسان کی بدبختی قرر دینا اس امر کو واضح کرتا ہے کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اپنی بھلائی اور اپنی بہتری کے لئے اللہ کی طرف متوجہ اور اس سے ہمیشہ خیر کا طلبگار رہے۔ نیز جب آپ ﷺ نے یہ فرمایا کہ ابن آدم کو چاہئے کہ وہ ہر صورت میں قضا وقدر الٰہی پر راضی رہے۔ تو اس سے یہ وہم پیدا ہوسکتا ہے کہ گناہ کے علاوہ اور خلاف شریعت امور کا ارتکاب ہوجانے کی صورت میں بھی اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر اس پر راضی و مطمئن ہوجانا چاہئے۔ لہٰذا آپ ﷺ نے واضح فرمایا کہ انسان کو چاہئے کہ وہ ہر لمحہ اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی ہی کا طالب رہے تاکہ وہ پاک ذات اس کو صرف خیر بھلائی کی راہ پر لے جائے اور اس کو صرف پسندیدہ امور اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے اور برائی کی رہ اور خلاف شریعت امور سے اس کی حفاظت کرتا رہے۔ واضح رہے کہ ہر صورت میں اور ہر حالت میں قضا وقدر الٰہی پر راضی ہونا بہت بڑی بات ہے اور اس مقام کا نام یعنی مرتبہ عظمی ہے۔ یہ بات بتادینا بھی ضروری ہے کہ قضا وقدر الٰہی پر راضی ہونے کو، کہ وہ اپنی تقدیر وقسمت کے خلاف ناراضگی وغضب ناکی کو ترک کرتا ہے، انسان کی سعادت ونیک بختی قرار دینا دو چیزوں کی وجہ سے ہے، ایک تو یہ کہ جو شخص قضائے الٰہی پر راضی رہتا ہے، اس کو سکون قلب، ذہنی فراغت و اطمینان اور خاطر جمعی کی دولت نصیب ہوجاتی ہے اور یہ چیز ایسی ہے کہ اس کی وجہ سے انسان اپنے معاملات و کاروبار اور خاص طور پر حق تعالیٰ کی اطاعت و عبادت میں نہایت سکون و اطمینان کے ساتھ مشغول رہتا ہے، چناچہ جو شخص تقدیر پر اعتقاد نہیں رکھتا یا قسمت کے لکھے پر رضی نہیں ہوتا وہ ذرا ذرا سی مصیبت اور حادثات پر متفکر اور پراگندہ خاطر رہتا ہے اور یہ ادھیڑ بن اس کو اپنے مقاصد و معاملات اور طاعات و عبادات میں دل و دماغ کے سکون و اطمینان سے محروم رکھتی ہے کہ یہ مصیبت کیوں آگئی، فلاں حادثہ کیسے رونما ہوگیا اور یہ بات اس طرح کیوں نہ ہوگئی؟ دوسرے یہ کہ یہ چیز بندہ کو اس سبب سے اللہ تعالیٰ کے غضب وغصہ سے بچاتی ہے کہ وہ اللہ کی لکھی تقدیر کے خلاف اپنی ناراضگی اور اپنے غصہ کا اظہار نہیں کرتا۔ اور تقدیر کے خلاف انسان کی ناراضگی وغصہ یہ ہے کہ وہ اس بات کا ذکر کرے اور اس چیز کو اپنے حق میں بہتر قرار دے دے، جس کو اللہ نے اس کے مقدر میں نہیں لکھا ہے اور ظاہر ہے کہ جو چیز اللہ نے اس کے مقدر میں لکھ دی ہے وہ یقینی طور پر اس چیز سے بہتر اور اولیٰ ہے جس کا اچھا اور برا ہونا سرے یقینی ہی نہیں ہے۔ استخارہ یعنی اللہ تعالیٰ سے خیر و بھلائی طلب کرنے کی حقیقت یہ ہے کہ اپنے تمام معاملات اور تمام امور میں اللہ تعالیٰ سے بہتری اور اچھائی طلب کی جائے بلکہ یہ یقین و اعتقاد رکھے کہ یہ انسان یہ جانتا ہی نہیں کہ اس کے حق میں کونسی چیز اچھی ہے اور کون سی چیز بری، یہ صرف اللہ ہے جو اپنے بندوں کے حق میں اچھی اور بری چیز کو جانتا ہے، چناچہ عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ انسان کسی چیز کو اپنے حق میں بہتر جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ چیز اس کے حق میں بری ہوتی ہے، یا کسی کی چیز کو اپنے لئے برا سمجھتا ہے مگر حقیقت میں وہ چیز اس کے حق میں اچھی ہوتی ہے، جیسا کہ فرمایا گیا ہے ا یت ( عسی ان تکر ہوا شیأ وہو خیرلکم وعسیٰ ان تحبوا شیأا وہو شرلکم واللہ یعلم وانتم لا تعلمون) یہ بالکل بعید نہیں ہے کہ تم کسی چیز کو اپنے حق میں بری سمجھو مگر حقیقت میں وہ تمہارے لئے اچھی ہو اور یہ بھی بعید نہیں ہے کہ کسی چیز کو تم اپنے حق میں اچھی سمجھو مگر حقیقت میں وہ تمہارے لئے بری ہو، یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے تم نہیں جانتے کہ تمہارے حق میں کونسی چیز اچھی ہے اور کونسی بری؟ جب یہ یقین و اعتقاد پختہ ہوجائے تو پھر اس یقین و اعتقاد کے ذریعہ آگے کا درجہ اختیار کرے کہ اس دنیا میں اور ہماری زندگی میں جو کچھ بھی وقوع پذیر ہوتا ہے وہ سب اللہ کی طرف سے اور اس کے حکم و فیصلہ کے مطابق ہے اور جو بھی چیز اللہ کے حکم و فیصلہ کے مطابق ہوتی ہے وہ حقیقت اور انجام کے اعتبار سے خیر و بھلائی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی اس لئے وارد ہوا ہے کہ الخ۔ یر بیدیک والشر لیس الیک، اے رب خیر و بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اور برائی تیری طرف سے منسوب نہیں کی جاسکتی اور پھر یہ مستحب ہے کہ اگر کوئی اہم دینی یا دنیوی معاملہ درپیش ہو تو اس کے متعلق ذی علم اصحاب رائے اور مخلصین سے صلاح مشورہ کرنے کے بعد استخارہ کیا جائے یعنی کا رساز حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف حضور قلب کے ساتھ متوجہ ہو کر خیر و بھلائی کی دعا مانگی جائے، استخارہ میں کم سے کم یہ چیز ہے کہ یوں دعا مانگی جائے۔ اللہم خر لی واختر لی فلاتکلنی الی اختیاری۔ اے اللہ میرے حق میں بہتر فرما اور جو چیز میرے لئے بہتر ہو رہی ہے اختیار فرما، پس مجھے میرے اختیار کے سپرد نہ فرما۔ اور استخارہ کا کامل طریقہ یہ ہے کہ پہلے دو رکعت نماز پڑھے اور پھر استخارہ کی دعا پڑھے جو بطور مسنون دعا مشہور ہے اور اسی کتاب کے گزشتہ صفحات میں نقل بھی کی جا چکی ہے۔ طبرانی نے اوسط میں حضرت انس ؓ سے یہ مرفوع روایت نقل کی ہے کہ ماخاب من استخار ولا ندم من استشار ولا عال من اقتصد۔ یعنی وہ شخص نامراد نہیں ہوسکتا جس نے استخارہ کیا، وہ شخص نادم وشرمندہ نہیں ہوسکتا جس نے مشورہ کیا اور وہ شخص محتاج نہیں ہوسکتا جس نے میانہ روی اختیار کی۔ بعض حکماء نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ چار چیزیں حاصل ہوگئیں وہ چار چیزوں سے محروم نہیں ہوسکتا، جس شخص کو شکر گزاری کا مرتبہ حاصل ہو وہ نعمتوں میں اضافہ و زیادتی سے محروم نہیں رہے گا، جس شخص کو توبہ کی توفیق نصیب ہوگی وہ قبولیت سے محروم نہیں رہے گا جس شخص نے استخارہ کا راستہ اختیار کیا وہ بہتری و بھلائی سے محروم نہیں رہے گا، جس شخص نے مشورہ حاصل کیا وہ صحیح بات تک پہنچنے سے محروم نہیں رہے گا۔
Top