مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5200
وعن أنس قال كان أخوان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان أحدهما يأتي النبي صلى الله عليه وسلم والآخر يحترف فشكا المحترف أخاه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال لعلك ترزق به رواه الترمذي وقال هذا حديث صحيح غريب
کسب وکمائی کو اصل رازق نہ سمجھو
حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں دو بھائی تھے جن میں سے ایک تو نبی کریم ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا کیونکہ اس کے اہل و عیال نہیں تھے اور وہ حصول معاش کی ذمہ داریوں سے بےفکر ہو کر طاعت و عبادت اور دینی خدمات میں مشغول رہا کرتا تھا، اس وجہ سے اس کے اوقات کا اکثر حصہ بارگاہ رسالت میں حاضر باشی کے ذریعہ حصول علم و معرفت میں صرف ہوتا تھا اور دوسرا بھائی کوئی کام کرتا تھا یعنی حصول معاش کے لئے کسی ہنر وپیشہ کے ذریعہ کماتا تھا اور دونوں بھائی ایک ساتھ کھاتے پیتے تھے چناچہ کمانے والے بھائی نے اپنے دوسرے بھائی کے بارے میں نبی کریم ﷺ سے شکایت کی یعنی میرا بھائی نہ تو میرے کام کاج میں ہاتھ بٹاتا ہے اور نہ خود الگ سے کوئی کام کر کے کماتا ہے اور اس طرح اس کے کھانے پینے کا خرچ مجھے ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ حضور ﷺ اس کی یہ شکایت سن کر فرمایا۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ تمہیں اسی کی برکت سے رزق دیا جاتا ہو۔ اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح غریب ہے۔

تشریح
حضور کے جواب کا مطلب یہ تھا کہ تم یہی کیوں سمجھتے ہو کہ تمہیں جو رزق ملتا ہے وہ حقیقت میں تمہارے کمانے کی وجہ سے ملتا ہے، بلکہ ہوسکتا ہے کہ تم اپنے اس بھائی کے ساتھ جو ایثار کا معاملہ کرتے ہو اور اس کی معاشی ضروریات کا بوجھ برداشت کر کے جس طرھ اس کو فکر و غم سے دور رکھتے ہو اسی کی برکت کی وجہ سے تمہیں بھی رزق دیا جاتا ہو، پس اس صورت میں شکوہ و شکایت کرنے اور اس پر احسان رکھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ علم وعمل اور دینی خدمات کی طرف متوجہ رہنے اور زاد عقبی کی تیار کے لئے دنیاوی مشغولیات کو ترک کرنا جائز ہے، نیز یہ حدیث اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ فقراء اور خاص طور پر اپنے ضرورت مند اور غریب اعزاء و اقرباء کی خبر گیری کرنا اور ان کی معاشی ضروریات کی کفالت کرنا، رزق میں وسعت و برکت کا باعث ہے۔
Top