مشکوٰۃ المصابیح - کسب اور طلب حلال کا بیان - حدیث نمبر 5204
وعن أبي الدرداء قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الرزق ليطلب العبد كما يطلبه أجله . رواه أبو نعيم في الحلية . ( متفق عليه )
رزق انسان کی تلاش میں رہتا ہے
حضرت ابودرداء کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رزق بندے کی اس طرح تلاش کرتا ہے جس طرح انسان کو اس کی موت ڈھونڈتی ہے۔ اس روایت کو ابونعیم نے کتاب حلیہ میں نقل کیا ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ رزق اور موت دونوں کا پہنچنا ضروری ہے کہ جس طرح کہ اس بات کی کوئی حاجت نہیں ہوتی کہ کوئی اپنی موت کو ڈھونڈے اور اس کو پائے بلکہ خود موت اس کے پاس ہر صورت میں اور یقینی طور پر آتی ہے، اسی طرح رزق کا معاملہ ہے کہ اس کو تلاش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو کچھ مقدر میں ہوتا ہے وہ ہر صورت میں لازمی طور پر پہنچتا ہے، خواہ اس کو ڈھونڈا جائے یا نہ ڈھونڈا جائے۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ڈھونڈنے کی صورت میں رزق نہیں ملتا، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ حصول رزق کے لئے سعی تلاش بھی تقدیر الٰہی اور نظام قدرت کے مطابق ہے البتہ جہاں تک قلبی اعتماد و بھروسہ کا تعلق ہے او وہ صرف اللہ کی ذات پر ہونا چاہئے نہ کہ سعی و تلاش پر۔ لہٰذا اس سلسلے میں صحیح راہ یہ ہے کہ اول انسان کو اللہ پر توکل اعتماد کرنا چاہئے اور یہ پختہ یقین رکھنا چاہئے کہ رزق کا ضامن اللہ تعالیٰ ہے۔ نیز اگر رزق ملنے میں کوئی رکاوٹ اور تاخیر ہوجائے تو اضطراب وبے چینی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے پھر اس اعتقاد کے ساتھ اپنی ضرورت و حاجت اور ہمت و طاقت کے بقدر معتدل و مناسب طریقہ پر حصول معاش کی سعی و تلاش میں لگنا چاہئے کہ اصل رازق تو اللہ تعالیٰ ہے، لیکن یہ بھی طریقہ عبودیت ہے کہ اپنا رزق حاصل کرنے کے لئے مناسب ججدوجہد اور تلاش وسعی کی جائے؛ ملا علی قاری نے حدیث کے خاتمہ پر لکھا ہے کہ یہی نہیں کہ جس طرح انسان کو اس کی موت کا پہنچنا یقینی ہے اسی طرح اس کے رزق کا بھی اس تک پہنچنا یقینی ہے بلکہ انسان کو اس کا رزق اس کی موت سے بھی پہلے اور موت سے بھی جلدی پہنچتا ہے، کیونکہ جب کسی کی موت آتی ہے تو وہ اپنا رزق اس سے پہلے پا چکا ہوتا ہے جس کو وہ اپنے مقدر میں لے کر اس دنیا میں آیا تھا، چناچہ اگر غور کیا جائے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد آیت (اللہ الذی خلقکم ثم رزقکم ثم یمیتکم ثم یحییکم) سے بھی یہی بات ثابت ہوتی ہے نیز میرک نے منذری سے نقل کیا ہے کہ اس حدیث کو ابن ماجہ نے اپنی صحیح میں اور بزار نے بھی روایت کیا ہے اور طبرانی نے بھی بہتر سند کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے جس میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ ان الرزق لیطلب العبد اکثر ممایطلبہ اجلہ اس سے بھی مذکورہ بالا بات کی تائید ہوتی ہے۔ ملا علی قاری نے یہ بھی لکھا ہے کہ ابونعیم نے اپنی کتاب حلیہ میں بطریقہ مرفوع یہ بات بھی نقل کی ہے لون ابن ادم ہرب من رزقہ کما یہرب من الموت لادر کہ رزقہ کما یدرکہ الموت اگر انسان اپنے رزق سے بھی اس طرح بھاگے جس طرح وہ اپنی موت سے بھاگتا ہے تو یقینا اس کا رزق بھی اس کو اسی طرح پالے جس طرح کہ اس کی موت اس کو پا لیتی ہے۔
Top