مشکوٰۃ المصابیح - معاملات میں نرمی کرنے کا بیان - حدیث نمبر 2847
وعن قيس بن أبي غرزة قال : كنا نسمى في عهد رسول الله صلى الله عليه و سلم السماسرة فمر بنا رسول الله صلى الله عليه و سلم فسمانا باسم هو أحسن منه فقال : يا معشر التجار إن البيع يحضره اللغو والحلف فشوبوه بالصدقة . رواه أبو داود والترمذي والنسائي وابن ماجه
تجارت کے ساتھ صدقہ وخیرات کا حکم
قیس بن غرزہ (جو سوداگری کرتے تھے) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ہم لوگوں کو یعنی سودا گروں کو سماسرہ کہا جاتا تھا۔ چناچہ ایک دن کا ذکر ہے کہ نبی کریم ﷺ کا گزر ہماری طرف ہوا تو آپ ﷺ نے ہمارے طبقے کا ایک ایسا نام عطا کیا جو ہمارے پہلے نام سے کہیں بہتر ہے چناچہ آپ ﷺ نے فرمایا اے طبقہ تجار تجارت میں اکثر بےفائدہ باتیں اور بہت زیادہ قسم یا کبھی کبھی جھوٹی قسم کھانے کی صورتیں پیش آتی رہتی ہیں اس لئے تم تجارت کو صدقہ و خیرات کے ساتھ ملائے رکھو (ابوداؤد ترمذی نسائی ابن ماجہ)

تشریح
سماسرہ دراصل لفظ سمسار کے جمع کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں دلال یا کسی چیز کا مالک و منتظم چناچہ پہلے زمانے میں تجارتی کاروبار کرنے والے کو سمسار ہی کہتے ہیں پھر آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کو اس سے بہتر نام یعنی تجارج ولفظ تاجر کی جمع کا صیغہ ہے عطاء کیا اس نام کے بہتر ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں خریدو فروخت کے کاروبار کو مدحیہ طور پر لفظ تجارت کے ساتھ ذکر کیا ہے جیسے ایک آیت کی عبارت کا یہ ٹکڑا ہے (هَلْ اَدُلُّكُمْ عَلٰي تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِيْمٍ ) 61۔ الصف 10) (کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے) یا ایک اور آیت میں ہے (تجارۃ عن عراض) (سوداگری آپس کی رضا مندی سے) یا ایک آیت کے یہ الفاظ تجارۃ (لن تبور) (تجارت کرو ہلاکت میں نہ پڑو) فشوبوہ بالصدقۃ (تجارت کو صدقہ و خیرات کے ساتھ ملائے رکھو کا مطلب یہ ہے کہ تجارتی زندگی میں عام طور پر بےفائدہ باتیں اور جھوٹی سچی قسموں کا صدور ہوتا رہتا ہے اور یہ دونوں ہی چیزیں پروردگار کے غضب وغصہ کا باعث ہیں اس لئے تم ان دونوں چیزوں کے کفارہ کے طور پر اپنا کچھ مال صدقہ و خیرات کرتے رہا کرو کیونکہ صدقہ و خیرات اللہ تعالیٰ کے غضب وغصہ کو دور کرتا ہے۔
Top