مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5815
وعن أنس قال نعى النبي صلى الله عليه و سلم زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن يأتيه خبرهم فقال أخذ الراية زيد فأصيب ثم أخذ جعفر فأصيب ثم أخذ ابن رواحة فأصيب وعيناه تذرفان حتى أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم . رواه البخاري
ان دیکھے واقعہ کی خبر دینے کا معجزہ ،
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے زید، جعفر اور ابن رواحہ کی شہادت کا حال، ان تینوں کے بارے میں خبر آنے سے پہلے ہی لوگوں کو سنا دیا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا زید نے جھنڈا لیا اور شہید ہوگئے، پھر جعفر نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے، پھر ابن رواحہ نے جھنڈا لیا اور وہ بھی شہید ہوگئے، آپ ﷺ یہ بیان کر رہے تھے اور (ان شہداء کے غم میں) آنکھوں سے آنسو جاری تھے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا آخر کار اس شخص نے جھنڈا لیا جو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ حضرت انس یا بعد کے کسی روای کا بیان ہے کہ) اس سے آنحضرت ﷺ کی مراد خالد بن ولید کی ذات تھی، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرما دی۔ (بخاری)

تشریح
یہ واقعہ جنگ موتہ کا ہے موتہ ایک جگہ کا نام ہے جو ملک شام میں واقع ہے، یہ جنگ سن ٨ ھجری میں رومیوں سے ہوئی تھی اور آنحضرت ﷺ نے وہاں لشکر بھیجتے ہوئے مذکورہ بالا تینوں جلیل القدر صحابہ کرام کو نامزد فرمایا تھا کہ اگر جنگ کے درمیان امیر لشکر زید بن حارث شیہد ہوجائیں تو ان کے بعد جعفر امیر لشکر ہوں گے اور اسلام کا جھنڈا ان کے ہاتھ میں ہوگا، چناچہ اس جنگ میں ایسا ہی ہوا کہ یہ تینوں حضرات یکے بعد دیگرے شہید ہوگئے اور پھر اسلامی لشکر نے حضرت خالدابن ولید کو اپنا امیر چن لیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح عطا فرمائی۔ پس آنحضرت ﷺ کی شہادت کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں آئی تھی، مقام موتہ سے ایک ماہ کی مسافت کے فاصلہ پر ( مدینہ منورہ میں) بیٹھے بیٹھے اس واقع کی خبر دے دی تھی۔ یہ آپ ﷺ کا معجزہ ہوا۔ نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ موت کی خبر پہنچانا جائز ہے۔ جو اللہ کی تلوار میں ایک تلوار ہے۔ کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کے بہادر ترین بندوں میں سے ایک بہادر ترین بندہ ہے اور اسی مناسبت سے ان کا لقب سیف اللہ ( اللہ کی تلوار) ہے، پس اس جملہ میں اللہ کی طرف تلوار کی نسبت، دراصل حضرت خالد کی عظمت اور ان کی بےمثال شجاعت کو ظاہر کرنے کے لئے ہے، چناچہ منقول ہے کہ وہ دشمن کے ایک ایک ہزار سپاہیوں پر تنہا حملہ کر کے ان کو پچھاڑ دیتے تھے اور اس دن لڑتے لڑتے ان کے ہاتھ سے آٹھ تلواریں ٹوٹی تھیں۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح عطا فرما دی۔ کے تحت محدثین اور شارحین کے اس بارے میں اختلافی اقوال ہیں کہ اس جنگ میں دشمنوں کو کامل ہزیمت اور شکست اٹھانا پڑی تھی اور مسلمان مال غنیمت کے ساتھ فائز المرام لوٹے تھے، یا فتح سے مراد مسلمانوں کا اپنے دفاع میں کامیاب ہوجانا ہے، کہ اسلامی لشکر دشمن کی تباہ کن طاقت کا پامردی سے مقابلہ کر کے صحیح وسالم واپس آگیا تھا؟ حضرت شیخ عبد الحق (رح) نے یہاں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے فتح عطا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے رومیوں کے خلاف جنگ میں مسلمانوں کی مدد فرمائی اور مسلمان ان کے ہاتھوں شکست وہزیمت اٹھانے سے محفوظ رہے۔
Top