مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5819
وعن أبي هريرة قال شهدنا مع رسول الله صلى الله عليه و سلم حنينا فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لرجل ممن معه يدعي الإسلام هذا من أهل النار فلما حضر القتال قاتل الرجل من أشد القتال وكثرت به الجراح فجاء رجل فقال يا رسول الله أرأيت الذي تحدثت أنه من أهل النار قد قاتل في سبيل الله من أشد القتال فكثرت به الجراح فقال أما إنه من أهل النار فكاد بعض الناس يرتاب فبينما هو على ذلك إذ وجد الرجل ألم الجراح فأهوى بيده إلى كنانته فانتزع سهما فانتحر بها فاشتد رجال من المسلمين إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم فقالوا يا رسول الله صدق الله حديثك قد انتحر فلان وقتل نفسه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم الله أكبر أشهد أني عبد الله ورسوله يا بلال قم فأذن لا يدخل الجنة إلا مؤمن وإن الله ليؤيد هذا الدين بالرجل الفاجر . رواه البخاري
ایک حیرت انگیز پیش گوئی جو بطور معجزہ پوری ہوئی
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ حنین میں شریک تھے وہاں جنگ شروع ہونے سے پہلے ( میدان جنگ میں) رسول کریم ﷺ نے اپنے لشکر کے لوگوں میں سے ایک ایسے شخص کے بارے میں کہ جو اپنے کو مسلمان کہتا تھا فرمایا یہ شخص دوزخی ہے۔ پھر جب لڑائی شروع ہوئی تو وہ شخص بڑی بےجگری سے لڑا اور اس کا جسم زخموں سے چور ہوگیا ( یہ دیکھ کر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے) ایک صاحب نے آکر، اظہار تعجب کے طور پر) عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اس شخص کی حقیقت حال مجھے بتائیے جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ وہ دوزخی ہے ( جب کہ ظاہری حال تو یہ ہے کہ) وہ اللہ کی راہ میں بڑی بےجگری سے لڑا ہے اور بہت زخم اس نے کھائے ہیں، جس سے اس کا جنتی ہونا معلوم ہوتا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یاد رکھو وہ دوزخیوں میں سے ہے، یعنی حقیقت حال وہی ہے جو میں نے پہلے بتائی ہے کہ وہ شخص دوزخی ہے اگرچہ اس کا ظاہر حال اس کے خلاف ہی کیوں نہ نظر آئے، بات یہ ہے کہ آخرت کے متعلق ظاہری اعمال کا کچھ اعتبار نہیں اصل مدار حسن احوال اور حسن خاتمہ پر ہے۔ اور پھر قریب تھا کہ بعض ( ضعیف الایمان) لوگ ( میدان جنگ میں کافروں کے خلاف اس شخص کی جان فروشانہ لڑائی کو دیکھتے ہوئے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کی سچائی میں) شک وشبہ کا شکار ہوجاتے، لیکن ( اسی وقت لوگوں نے دیکھا کہ) یکایک اس شخص نے اپنے زخموں کی تکلیف سے بےچین ہو کر اپنا ہاتھ ترکش کی طرف بڑھایا اور ایک تیر نکال کر اس کو ابنے سینہ میں پیوست کرلیا۔ ( یہ دیکھنا تھا کہ) بہت سے مسلمان دوڑے ہوئے رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی ( یہ) بات سچی کردی ( کہ وہ شخص دوزخی ہے) اس نے اپنا سینہ چیر کر خود کشی کرلی ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا۔ اللہ بہت بڑا ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ میں اللہ کا بندہ اس کا رسول ہوں۔ ( یہ الفاظ آپ ﷺ نے اس خوشی کے اظہار کے لئے فرمائے کہ آپ ﷺ کا کہنا سچ ہوا اس کے بعد آپ ﷺ نے حکم دیا کہ) بلال کھڑے ہو اور لوگوں کو آگاہ کردو کہ جنت میں صرف مؤمن داخل ہوگا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو فاسق شخص کے ذریعہ بھی مضبوط کرتا ہے۔ ( بخاری)

تشریح
یہاں اس واقعہ کا ذکر غزوہ حنین کی نسبت سے کیا گیا ہے جب کہ مواہب لدنیہ میں اس کا ذکر غزوہ خیبر کے موقع پر ہوا ہے اور صحیح بخاری میں یہی منقول ہے لہٰذا ہوسکتا ہے اس طرح کا واقعہ دونوں غزو وں میں پیش آیا ہو۔ حدیث میں جس شخص کا ذکر کیا گیا ہے اس کا نام قرمان تھا اور وہ ایک منافق تھا اگرچہ اس کا منافق ہونا ظاہر نہیں تھا۔ اور ایک تیر نکال کر اس کو اپنے سینہ میں پیوست کرلیا بخاری کی اکثر روایتوں میں سھما کے بجائے جمع کا صیغہ اسھما نقل کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے ترکش سے بیک وقت کئی تیر کھینچ کر ان سب کو اپنے سینہ میں گھسیڑ لیا تھا، نیز صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں نقل کیا گیا ہے کہ اس شخص نے اپنی تلوار زمین پر رکھی اور اس کی دھار پر اپنا سینہ رکھ کر زور سے دبایا یہاں تک کہ مرگیا۔ لیکن ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس نے پہلے تیر کے ذریعہ اپنا کام تمام کرنا چاہا ہو اور جب فوری طور پر وہ نہ مر سکا ہوگا تو پھر تلوار کے ذریعہ خود کشی کا عمل پورا کیا ہوگا۔ حاصل یہ کہ اس شخص کی موت اس حال میں آئی کہ اس کے اندر خبث باطن ( نفاق تھا) یا پھر وہ خود کشی کرلینے کے سبب فاسق کی موت مرا۔ اللہ تعالیٰ اس دین کو فاسق شخص۔۔ الخ۔ میں فاسق سے مراد یا تو منافق ہے یا وہ لوگ مراد ہیں جو نام ونمود کے لئے اور نمائش کے جذبہ سے اچھے عمل کرتے ہیں یا اچھے عمل بھی کرتے ہیں اور گناہ کے کام کرتے رہتے ہیں اور یا یہ کہ زندگی بھر تو اچھے عمل کرتے رہتے ہیں لیکن آخر میں کوئی ایسی بد عملی کرلیتے ہیں جس سے خاتمہ بالخیر نہیں ہوتا۔ ایک احتمال تو یہ ہے کہ اس جملہ کا تعلق بھی اس اعلان سے ہے جس کا حکم آنحضرت ﷺ نے حضرت بلال کو دیا، لیکن دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس جملہ کا تعلق اعلان سے نہیں ہے بلکہ آپ ﷺ نے یہ جملہ الگ سے فرمایا اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا تھا کہ زبانی قول ودعوی اور ظاہری اعمال بہر صورت حقیقت حال کے ترجمان نہیں ہوتے ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص زبان سے اپنی نیکی کا دعوی بھی کرتا ہے اور بظاہر نیک کام بھی کرتا دکھائی دیتا ہے مگر اس کے اندر نیت کے فساد یا نفاق کی ایسی برائی ہوتی ہے جس سے اس کے حقیقی احوال اور اس کے باطن کا اس کے ظاہر ہونے سے تعلق نہیں ہوتا اگرچہ اس کے ظاہری اعمال کے سبب دین کو فائدہ پہنچتا ہے اس کی بڑی مثال وہ لوگ ہیں جو محض مالی مفاد اور دنیاوی اغراض فاسدہ کے تحت دینی کتابوں کی تصنیف و تالیف اور درس و تدریس کا کام کرتے ہیں، یا اذان دیتے ہیں، امامت کرتے ہیں، وعظ وتقریر کرتے ہیں اور مسجد ومدرسہ بناتے ہیں، اس طرح کے لوگ بظاہر حسن عمل اور حسن خدمت میں مصروف نظر آتے ہیں اور ان کے اس عمل و خدمت سے یقینا اسلام کو، مسلمانوں اور نیکی کے طلبگاروں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے اور وہ دین وملت کی تقویت کا باعث بنتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ خود اپنے اس عمل و خدمت پر اجر وثواب سے بےبہرہ ہوتے ہیں۔
Top