مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5822
وعن أبي سعيد الخدري قال بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه و سلم وهو يقسم قسما أتاه ذو الخويصرة وهو رجل من بني تميم فقال يا رسول الله اعدل فقال ويلك ومن يعدل إذا لم أعدل قد خبت وخسرت إن لم أكن أعدل فقال عمر له ائذن لي أضرب عنقه فقال دعه فإن له أصحابا يحقر أحدكم صلاته مع صلاتهم وصيامه مع صيامهم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية ينظر إلى نصله إلى رصافه إلى نضيه وهو قدحه إلى قذذه فلا يوجد فيه شيء قد سبق الفرث والدم آيتهم رجل أسود إحدى عضديه مثل ثدي المرأة أو مثل البضعة تدردر ويخرجون على حين فرقة من الناس قال أبو سعيد أشهد أني سمعت هذا الحديث من رسول الله صلى الله عليه و سلم وأشهد أن علي بن أبي طالب قاتلهم وأنا معه فأمر بذلك الرجل فالتمس فأتي به حتى نظرت إليه على نعت النبي صلى الله عليه و سلم الذي نعته وفي رواية : أقبل رجل غائر العينين ناتئ الجبين كث اللحية مشرف الوجنتين محلوق الرأس فقال يا محمد اتق الله فقال : فمن يطيع الله إذا عصيته فيأمنني الله على أهل الأرض ولا تأمنوني فسأل رجل قتله فمنعه فلما ولى قال : إن من ضئضئ هذا قوما يقرءون القرآن لا يجاوز حناجرهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية يقتلون أهل الإسلام ويدعون أهل الأوثان لئن أدركتهم لأقتلنهم قتل عاد . متفق عليه
فرقہ خوارج کے بارے میں پیشگوئی جو حرف بہ حرف پوری ہوئی
حضرت سعید خدری کہتے ہیں کہ اس جب کہ ہم ( مقام جعرانہ میں) رسول کریم ﷺ کے ساتھ تھے اور آپ ( غزوہ حنین میں حاصل شدہ) مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک جس کا نام ذوالخویصرہ تھا اور جو ( مشہور قبیلہ) بنی تمیم سے تعلق رکھتا تھا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں آکر کہنے لگا کہ یا رسول اللہ ( مال غنیمت کی تقسیم میں) عدل و انصاف سے کام لیجئے۔ آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر) فرمایا تجھ پر افسوس ہے، میں عدل و انصاف نہیں کروں گا تو کون کرے گا، اگر میں عدل و انصاف سے کام نہ لوں تو یقینا تو محروم ہوجائے گا اور ٹوٹے میں رہے گا۔ حضرت عمر نے بارگاہ رسالت میں اس شخص کی یہ گستاخانہ فقرہ بازی دیکھ کر) عرض کیا کر یا رسول اللہ ﷺ! اجازت دیجئے کہ اس (گستاخ اور بدبخت) انسان کا سرقلم کر دوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا (نہیں) اس کو اس کے حال پر چھوڑ دو کیونکہ کچھ لوگ اس کے تابعدار ہوں گے جن کی نمازوں کے مقابلہ پر تم اپنی نمازوں کو) اور جن کے روزوں کے مقابلہ پر تم اپنے روزوں کو حقیر جانوگے، وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ جائے گا۔ اور وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جب تیر شکار کو چھیدتا اور پار نکل جاتا ہے تو چاہے اس کے حلق سے نیچے نہ جائے گا۔ اور وہ دین سے اس نکل جائیں گے جس طرح جب تیر شکار کو چھیدتا اور پار نکل جاتا ہے تو چاہے اس کے پیکان کو دیکھا جائے چاہے اس کے رصاف کو دیکھا جائے چاہے اس کے پروں کو دیکھا جائے کہیں بھی کچھ نہیں پایا جاتا حالانکہ وہ تیر نجاست اور خون میں سے ہو کر نکلتا ہے اور اس شخص (ذو الخویصرہ) کے تابعداروں ( کے سردار) کی علامت یہ کہ وہ سیاہ رنگ کا آدمی ہوگا جس کے ایک بازو میں عورت کے پستان کی مانند (ابھرا ہوا گوشت) کا ایک ٹکڑا ہوگا جو ہلتا ہوگا ( اسی بناء پر اس کو ذو الثدیہ کہا جائے گا) اور وہ لوگ (یعنی اس شخص کے تابعدار) لوگوں کے ایک بہترین طبقہ ( یعنی حضرت علی اور ان کے تابعداروں) کے خلاف بغاوت کریں گے۔ حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے خود یہ حدیث رسول کریم ﷺ سے سنی ہے اور پھر یہ بھی شہادت دیتا ہوں کہ امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اس فرقہ کے لوگوں سے (جن کی طرف آنحضرت ﷺ نے اس حدیث میں ارشاد فرمایا) جنگ کی اور میں اس جنگ میں حضرت علی کے ساتھ تھا حضرت علی نے (اس جنگ میں فتحیاب ہونے اور دشمنوں کی پسپائی کے بعد) اس شخص کو تلاش کرنے کا حکم دیا (جس کے بارے میں آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی تھی، چناچہ مقتولین میں سے تلاش کرکے حضرت علی کے پاس اس شخص کو لایا گیا تو میں نے دیکھا کہ نبی کریم ﷺ نے اس کی جو علامت بیان کی تھی وہ اس میں (ہوبہو) موجود تھی۔ اور ایک روایت میں (آنحضرت ﷺ ذوالخویصرہ کی آمد کے ذکر کے بجائے یوں مذکور ہے کہ (اس وقت جب کہ آنحضرت ﷺ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے) ایک شخص آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا جس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی تھیں، پیشانی ابھری ہوئی تھی، داڑھی گنجان تھی رخسار اٹھے ہوئے تھے اور سر منڈا ہوا تھا، اس نے کہا اے محمد ﷺ! اللہ سے ڈور (یعنی اللہ کی اطاعت کرو اور تقسیم میں عدل و انصاف سے کام لو) آنحضرت ﷺ نے فرمایا اگر میں ہی اللہ کی نافرمانی کروں گا تو پھر کون اللہ کی اطاعت کرے گا (یعنی میں مقام نبوت وعصمت پر فائز ہونے کی بنا پر اللہ تعالیٰ سے زیادہ ڈرنے والا اور سب سے زیادہ اس کی اطاعت کرنے والا ہوں، بھلا تو مجھ کو اطاعت گزاری کا کیا سبق دیتا ہے) مجھ کو اللہ تعالیٰ روئے روئے زمین کے لوگوں میں (سب سے بڑا) امین جانتا ہے (اور مخلوق میں عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے مجھے اس دنیا میں بھیجا ہے) صرف تو ہے جو مجھ کو امین نہیں سمجھتا اور مجھ پر اعتماد نہیں کرتا۔ ایک صحابی یعنی حضرت عمر نے (اس شخص کی یہ گستاخی دیکھ کر) آنحضرت ﷺ سے اس شخص کا سرقلم کردینے کی اجازت چاہی لیکن آپ ﷺ نے اس کو منع فرمایا اور جب وہ شخص واپس چلا گیا تو فرمایا اس شخص کی اصل سے ایک قوم نمودار ہوگی۔ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں جائے گا، اسلام (یعنی کمال اسلام کے دائرہ یا امام وقت کی اطاعت) سے وہ اس طرح نکل جائیں گم جس طرح تیر شکار میں نکل جاتا ہے، پھر وہ لوگ (یعنی خارجی، اہل اسلام کو تو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں گے (مطلب یہ کہ جن لوگوں سے جنگ کرنا زیادہ اہم ہوگا، یعنی کافروں اور بت پرستوں سے، ان سے تو جنگ کریں گے نہیں البتہ مسلمانوں کے خلاف جنگ وجدل میں مصروف رہیں گے) اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو ان کو اس طرح قتل کردوں جس طرح قوم عاد کے لوگ قتل کئے گئے تھے (بخاری ومسلم)

تشریح
ذوالخویصرہ نامی شخص جس کا حدیث میں ذکر ہوا، دراصل منافق تھا اور جیسا کی آنحضرت ﷺ نے پیش گوئی فرمائی، امیر المؤمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں جس طبقہ نے حضرت علی ؓ سے خروج و بغاوت کی راہ اختیار کی تھی جو فرقہ خوارج کے نام سے مشہور ہوا اس کی اصل بنیاد یہی شخص تھا اس کے حق میں قرآن کی یہ آیت (وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّلْمِزُكَ فِي الصَّدَقٰتِ ) 9۔ التوبہ 58) نازل ہوئی تھی۔ ایک شارح نے جو یہ کہا ہے کہ ذوالخویصرہ، خارجیوں کا سردار تھا تو یہ بات صحیح نہیں کیونکہ خارجیوں کا ظہور حضرت علی کے کرم اللہ وجہہ کے زمانہ میں ہوا ہے۔ غزوہ حنین میں غنیمت کے طور پر جو مال و اسباب اسلامی لشکر کے ہاتھ لگا تھا اس کو آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں میں اس طرح تقسیم فرمایا کہ جس شخص کی جتنی ضرورت و حاجت تھی اس کو اسی اعتبار سے عطا فرمایا اس منافق ذوالخویصرہ کو یہ بات ناگوار ہوئی اور اس نے اپنی بدظنی کے اظہار میں آنحضرت ﷺ پر گویا یہ اعتراض کیا کہ آپ ﷺ کو مال غنیمت کو تقسیم اس طرح نہیں کرنی چاہئے۔ بلکہ ہر شخص کو برابر برابر تقیسم کا جو طریقہ میں نے اختیار کیا ہے اس کی بنیاد عدل و انصاف کے سوا کچھ نہیں، عدل کا مطلب یہی نہیں ہے کہ ہر شخص کو برابر برابر دیا جائے خواہ کسی کی ضرورت کتنی ہی زیادہ ہو اور کسی کی حاجت کتنی ہی کم ہو، یہ بھی عدل ہی ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ ضرورت مند ہے اس کو اتنا ہی زیادہ دے کر اس کی ضرورت کو پورا کیا جائے اور جو شخص کم ضرورت رکھتا ہے اس کو کم دیا جائے، پھر آپ ﷺ نے اس شخص کو واضح فرمادیا کہ میں رحمۃ للعالمین بنا کر دنیا میں بھیجا گیا ہوں تاکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف کا معاملہ کروں اگر کوئی شخص میری عدالت اور میری انصاف پسندی پر انگلی اٹھاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس کے نصیب میں مایوسی و محرومی کے علاوہ کچھ نہیں ہے، لہٰذا تیری بہرہ مندی اور امیدواری تو اسی صورت میں تھی جب تجھے میری عدالت پر اعتماد ہوتا، اگر میرے عدل پر تجھے بھروسہ نہیں ہے اور تیرے نزدیک میں انصاف سے کام نہیں لے رہا ہوں تو سمجھ لے کہ تو خود اپنے گمان کے مطابق ناامید محروم ہوگیا اور ٹوٹے میں رہا۔ شرح السنۃ میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کو تو اس شخص کے قتل سے منع کردیا، لیکن دوسری روایت کے بموجب آپ ﷺ نے اپنے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ اگر میں اس شخص کے تابعداروں کو پاؤں تو قتل کر دوں؟ ان دونوں میں بظاہر تضاد معلوم ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے عزم کے اظہار کی صورت میں ان لوگوں کے قتل کو جو مباح فرمایا تو اس کا تعلق اس صورت سے ہے، جب وہ لوگ باقاعدہ اپنا گروہ بنائیں اور بہت سارے مل کر اور ہتھیار باندھ کر دوسرے لوگوں ( یعنی اہل اسلام) سے تعارض کریں اور ان کے خلاف جنگ وجدال کر معرکہ گرم کرنے کے درپے ہوں، جب کہ حضرت عمر کو منع کرنے کے وقت یہ صورت نہیں تھی وہ تو بس ایک شخص تھا جس نے اپنی بدباطنی اور اپنے نفاق کا اظہار کردیا تھا یہ اس کے فتنہ انگیز تابعداروں کا ظہور اور ان کے فتنہ و فساد کی اصل ابتداء حضرت علی کے زمانہ میں ہوئی۔ چناچہ حضرت علی نے ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے بہت سوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ لیکن زیادہ صحیح اور عمدہ بات وہ ہے جو ایک شارح نے لکھی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا حضرت عمر کو اس شخص کی قتل کی اجازت نہ دینا دراصل آنحضرت ﷺ کی اس حسن اخلاق اور کمال تحمل وبردباری کی دلیل ہے کہ آپ ﷺ کبھی بھی اپنی ذات کے بارے میں کسی سے بدلہ و انتقام نہیں لیتے تھے حالانکہ اس شخص نے زیادتی اور عداوت کے اظہار میں کئی کسر نہیں چھوڑی تھی اس نے براہ راست ذات رسالت کو مخاطب کرکے کہا، عدل و انصاف سے کام لو، دوسری روایت کے مطابق اس نے یہ کہا کہ اللہ سے ڈرو۔ اور ایک روایت میں اس کے یہ الفاظ منقول ہیں کہ ( اے محمد ﷺ! ) تم جس طرح مال غنیمت تقسیم کر رہے ہو اس میں عدل و انصاف نہیں ہے اس کے اس طرح کے الفاظ اس بات کے لئے کافی تھے کہ اس کو فورا قتل کردیا جاتا، کیونکہ اس نے رسول کریم ﷺ کی نکتہ چینی کی اور آپ ﷺ کو عیب لگایا، اسی لئے اگر کوئی شخص آج بھی ذات رسالت ﷺ کے متعلق اس طرح کے الفاظ زبان سے نکالے تو اس پر کفر و ارتداد کا حکم لگادیا جائے گا، لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے اس سے داوگیر نہیں کی اور اس کو قرار واقعی سزا دینے کی اجازت عطا نہیں فرمائی۔ جن کی نمازوں کے مقابلہ پر تم اپنی نمازوں کو۔۔ الخ۔ کا مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے تابعدار وہ لوگ ( جو فرقہ خوارج کے نام سے موسوم اور مشہور ہوں گے، بظاہر بڑے دین دار اور متبع شریعت نظر آئیں گے، وہ عام مسلمانوں کی نظر میں اپنا سکہ جمانے کے لئے ایسی اچھی نمازیں پڑھیں گے، بظاہر بڑے دین دار اور متبع شریعت نظر آئیں گے، وہ عام مسلمانوں کی نظر میں اپنا سکہ جمانے کے لئے ایسی اچھی نمازیں پر ھیں گے، وہ قرآن کی تلاوت بھی کریں گے اور اس طرح کریں گے کہ ترتیل وتجوید اور مخارج حروف کی رعایت کے تمام آداب و شرائط پر اتریں گے، لیکن ان کے دل میں چونکہ نفاق ہوگا اس لئے ان کی تلاوت حلق سے نیچے نہیں جائے گی، یعنی نہ ان کی تلاوت وقرآت عند اللہ مقبول ہوگی اور نہ ان کی عبادت و ریاضت اور اعمال اوپر چڑھیں گے اور ثمر آور ہوں گے یا یہ کہ ان کی تلاوت صرف ان کی زبان تک محدود رہے گی، نہ دل تک جائے گی اور نہ اس کے اثرات روح تک پہنچیں گے۔ پھر جب وہ لوگ اپنا مضبوط اور وسیع جتھہ بنالیں کے اور طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے تو پھر دین کی اطاعت و فرمانبرداری یا امام وقت کی اطاعت اور یا سرے سے اسلام کے دائرہ سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار کے بیچ میں سے نکل جاتا ہے، چناچہ جس جطرح شکار کے بیچ سے نکلے ہوئے تیر کے اوپر سے لے کر نیچے تک، کسی بھی حصہ پر خون یا نجاست کا نشان ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، حالانکہ وہ تیر خون اور نجاست ہی میں سے باہر نکلتا ہے اسی طرح ان لوگوں کے دین سے نکلنے کے بعد ان پر دینداری، اسلام کی وابستگی اور مسلمانوں کی محبت کا ذرا بھی کوئی اثر نہیں رہے گا حالانکہ وہ بڑے نمازی، قرآن کی بہت تلاوت کرنے والے اور تہجد گزار وشب بیدار ہوں گے۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے۔۔ الخ۔ حدیث کا یہ جملہ ان علماء کی دلیل ہے جو خوارج کی تکفیر کے قائل ہیں اور خطابی نے کہا ہے کہ دین سے نکل جائیں گے۔ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ لوگ سرے سے دین اسلام کے دائرہ ہی سے خارج ہوجائیں گے بلکہ ان کا امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا مراد ہے۔ اور سر منڈا ہوا تھا یہ گویا اس شخص کی طرف سے اس ہیبت و صورت کی ظاہری مخالفت تھی جس پر آنحضرت ﷺ کے اکثر صحابہ کرام تھے، چناچہ اکثر صحابہ کرام سر پر بال رکھتے تھے منڈاتے نہیں تھے علاوہ اس موقع کے جب حج سے فارغ ہونے کے بعد سر منڈانا ضرور ہوتا ہے، البتہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بارے میں منقول ہے کہ وہ اکثر اپنا سر منڈایا کرتے تھے اور وہ بھی اس احتیاط کے پیش نظر کہ غسل میں کہیں بالوں کی وجہ سے پانی سر تک پہنچنے سے نہ رہ جائے۔ جس طرح قوم عاد کے لوگ قتل کئے گئے تھے میں قتل سے مراد ان کی اجتماعی ہلاکت اور ان کا مکمل استیصال ہے اور اس چیز یعنی ہلاکت واستیصال کو قتل سے تعبیر کرنا محض مشاکلت کے لئے ہے ورنہ جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے تو قوم عاد کو قتل نہیں کیا گیا تھا، بلکہ سخت آندھی اور طوفان کے ذریعہ اس طرح ان کو ہلاک و برباد کیا گیا تھا کہ قوم کی قوم نیست ونابود ہو کر رہ گئی تھی۔
Top