مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5834
وعن جابر قال : توفي أبي وعليه دين فعرضت على غرمائه أن يأخذو ا التمر بما عليه فأبوا فأتيت النبي صلى الله عليه و سلم فقلت : قد علمت أن والدي استشهد يوم أحد وترك عليه دينا كثيرا وإني أحب أن يراك الغرماء فقال لي : اذهب فبيدر كل تمر على ناحية ففعلت ثم دعوته فلما نظروا إليه كأنهم أغروا بي تلك الساعة فلما رأى ما يصنعون طاف حول أعظمها بيدرا ثلاث مرات ثم جلس عليه ثم قال : ادع لي أصحابك . فما زال يكيل لهم حتى أدى الله عن والدي أمانته وأنا أرضى أن يؤدي الله أمانة والدي ولا أرجع إلى أخواتي بتمرة فسلم الله البيادر كلها وحتى إني أنظر إلى البيدر الذي كان عليه النبي صلى الله عليه و سلم كأنها لم تنقص تمرة واحدة . رواه البخاري
کجھوروں میں برکت کا معجزہ
اور حضرت جابر ابن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ جب میرے والد کی وفات ہوئی تو ان کے ذمہ بہت سا قرضہ تھا، چناچہ میں نے ان کے قرض خواہوں کو پیشکش کی کہ ہمارے پاس جتنی کھجوریں ہیں وہ سب اس قرض کے بدلہ میں جو میرے والد پر تھا لے لیں، لیکن انہوں نے میری بات ماننے سے انکار کردیا ( کیونکہ وہ قرض خواہ، جو یہودی تھے ان کھجوروں کو اپنے دیئے ہوئے قرض کے مقابلہ میں بہت کم جانتے تھے) آخر کار میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاصر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ کو معلوم ہے میرے والد احد کی جنگ میں شہید ہوگئے ہیں اور انہوں نے بہت سا قرض چھوڑا ہے، میں چاہتا ہوں کہ قرض خواہ آپ ﷺ کو ( میرے پاس) دیکھیں ( یعنی کوئی ایسی صورت ہو کہ جب قرض خواہ میرے پاس آئیں تو آپ ﷺ تشریف فرما ہوں تاکہ وہ آپ ﷺ کو دیکھ کر میرے ساتھ کوئی رعایت کردیں، آپ ﷺ نے یہ سن کر مجھ سے فرمایا کہ جاؤ اور ہر قسم کی کھجوروں کی الگ الگ ڈھیری بنا لو چناچہ میں نے ایسا ہی کیا کہ میرے پاس جتنی کھجوریں تھیں سب کو الگ الگ ڈھیریوں میں کردیا) اور اس کے بعد آنحضرت ﷺ کو بلا لایا۔ قرض خواہوں نے آنحضرت ﷺ کو تشریف لاتے دیکھا تو اس وقت انہوں نے فورا ایسا رویہ اختیار کرلیا جیسے وہ مجھ پر حاوی ہوگئے ہوں ( یعنی انہوں نے یہ گمان کرلیا کہ آنحضرت ﷺ کلی یا جزوی طور پر قرض معاف کرنے کی ہمیں تلقین کریں گے یا کچھ اور دنوں تک صبر کرنے کا مشورہ دیں گے، لہٰذا آنحضرت ﷺ کو دیکھتے ہی انہوں نے مجھ پر برسنا اور بڑے لب و لہجہ میں قرض کی واپسی کا مطالبہ کرنا شروع کردیا اور اس طرح انہوں نے پہلے ہی سے اپنا ایسا رویہ ظاہر کیا جیسے وہ بتانا چاہتے ہوں کہ پورے قرض کی واپسی کے علاوہ اور کسی بات پر تیار نہیں ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے جب ان قرض خواہوں کا یہ رویہ دیکھا تو ( ان سے کچھ کہے بغیر) کھجوروں کی سب سے بڑی ڈھیری کے گرد تین بار چکر لگایا اور پھر ڈھیری پر بیٹھ کر ( مجھ سے) فرمایا کہ اپنے قرض خواہوں کو بلاؤ ( جب وہ آگئے تو) آپ ﷺ کے حکم سے اس ڈھیری میں سے ناپ ناپ کر قرض خواہوں کو دینا شروع ہوا۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے میرے والد کا تمام قرضہ ادا کردیا، اگرچہ میری خوشی کے لئے یہی کیا کم تھا کہ اللہ تعالیٰ میری ان کھجوروں سے میرے والد کا تمام قرضہ ادا کرا دیتا خواہ اپنی بہنوں کے پاس لے جانے کے لئے ایک کھجور بھی باقی نہ بچتی لیکن اللہ تعالیٰ نے تو ( آنحضرت ﷺ کے معجزے سے) ساری ڈھیریوں کو محفوظ رکھا اور جس ڈھیری پر نبی کریم ﷺ بیٹھے ہوئے تھے میں نے اس کی طرف نظر اٹھائی تو ایسا لگا کہ اس میں سے بھی ایک کھجور کم نہیں ہوئی ہے اور جب اس ڈھیری ہی میں سے کچھ کم نہ ہوا جس میں سے ان قرض خواہوں کو ان کے طالبہ کے بقدر دیا گیا تھا تو باقی ڈھیریاں بدرجہ اولی محفوظ وسالم رہیں۔ ( بخاری)

تشریح
حضرت جابر ؓ کے والد نے اپنے پسماندگان میں کئی بیٹیاں چھوڑی تھیں جو حضرت جابر ؓ کی بہن ہوئی حضرت جابر ؓ کا مطلب یہ تھا کہ کھجوروں میں اپنے لئے یا اپنی بہنوں کے لئے میری کوئی خواہش نہیں تھی، میں تو اس میں خوش تھا کہ کسی طرح میرے والد کا تمام قرضہ اتر جائے خواہ ہمارے لئے ان کھجوروں میں سے کچھ نہ بچے، لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی برکت اور آپ ﷺ کے معجزے کے طفیل ان کھجوروں کے ذریعہ نہ صرف میرے والد کا تمام قرضہ ادا کردیا بلکہ تمام کجھورویں جوں کی توں بچ گئیں۔
Top