مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5840
وعن أبي هريرة قال : لما كان يوم غزوة تبوك أصاب الناس مجاعة فقال عمر : يا رسول الله ادعهم بفضل أزوادهم ثم ادع الله لهم عليها بالبركة فقال : نعم قال فدعا بنطع فبسط ثم دعا بفضل أزوادهم فجعل الرجل يجيء بكف ذرة ويجيء الآخر بكف تمر ويجيء الآخر بكسرة حتى اجتمع على النطع شيء يسير فدعا رسول الله صلى الله عليه و سلم بالبركة ثم قال خذوا في أوعيتكم فأخذوا في أوعيتهم حتى ما تركوا في العسكر وعاء إلا ملؤوه قال فأكلوا حتى شبعوا وفضلت فضلة فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : أشهد أن لا إله إلا الله وأني رسول الله لا يلقى الله بهما عبد غير شاك فيحجب عن الجنة . رواه مسلم
تبوک میں کھانے کی برکت کا معجزہ
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ غزوہ تبوک کے دن ( توشہ کی کمی کے سبب) جب سخت بھوک نے لوگوں کو ستایا تو حضرت عمر ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا ہے اس کو منگوا لیجئے اور پھر اس توشہ پر ان کے لئے اللہ سے برکت کی دعا فرمائیے، آنحضرت ﷺ نے فرمایا اچھا۔ اور پھر آپ ﷺ نے چمڑے کا دستر خوان منگوا کر بچھوایا اور لوگوں سے ان کا بچا ہوا توشہ لانے کے لئے کہا گیا چناچہ لوگوں نے چیزیں لانا شروع کیں، کوئی مٹھی بھر چنے لے کر آیا، کوئی مٹھی بھر کھجور لے کر آیا اور کوئی روٹی کا ٹکڑا لایا، اس طرح اس دستر خوان پر کچھ تھوڑی سی چیزیں جمع ہوگئیں تو رسول کریم ﷺ نے نزول برکت کی دعا فرمائی اور پھر ( سب لوگوں سے) فرمایا لو ( جس کا جتنا جی چاہے اس میں سے اپنا برتن بھر لے) چناچہ لوگوں نے اپنے اپنے برتن میں لینا شروع کیا یہاں تک کہ لشکر میں کوئی ایسا برتن نہیں بچا جس کو بھر نہ لیا گیا ہو۔۔۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ پھر سارے لشکر نے ( جو تقریبًا ایک لاکھ مجاہدین پر مشتمل تھا) خوب پیٹ بھر کر کھایا اور بھر بھی بہت سارا کھانا بچ رہا۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ بلاشبہ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اور یاد رکھو) ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص ان دو گواہیوں کے ساتھ کہ جن میں سے اس کو کوئی شک وشبہ نہ ہو، اللہ تعالیٰ سے جا کر ملے اور پھر اس کو جنت میں جانے سے روکا جائے۔ ( مسلم)

تشریح
تبوک ایک جگہ کا نام ہے جو مدینہ منورہ سے تقریبا ٤٦٥ میل کے فاصلہ پر واقع ہے، ماہ رجب سن ٩ ھ میں آنحضرت ﷺ عزوہ کے لئے وہاں اسلامی لشکر لے کر گئے تھے کہا جاتا ہے کہ اس لشکر میں ایک لاکھ کے قریب مجاہدین اسلام شامل تھے اور آنحضرت ﷺ کا یہ سب سے آخری غزوہ تھا۔ جو تھوڑا بہت توشہ لوگوں کے پاس بچا ہوا تھا۔۔ الخ۔ سے مراد حضرت عمر کا مطلب یہ تھا کہ عام طور پر اہل لشکر غذائی سامان کی قلت کا شکار ہیں اور بہت سے لوگ بھوگے رہ رہے ہیں، تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے پاس ان کی حاجت و ضرورت سے زائد کچھ سامان خوراک ہوگا، لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کو ہدایت فرمائیے، کہ وہ اس بچے ہوئے سامان خوراک کو لے کر آپ ﷺ کے پاس آجائیں۔ دراصل اس روایت میں یہاں اختصار سے کام لیا گیا ہے، پوری روایت یوں ہے کہ جب ( اہل لشکر کو سامان خوراک کی قلت کا سامنا کرنے پڑا اور) لوگ بھوکے رہنے لگے تو انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اگر آپ ﷺ اجازت دیں تو ہم اپنے اونٹ ذبح کر کے اپنی غذائی ضرورت پوری کرلیں، آنحضرت ﷺ نے ان کو اجازت دے دی، لیکن جب حضرت عمر کو یہ معلوم ہوا تو وہ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ! اگر آپ ﷺ نے لوگوں کو اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دے دی تو اس سے لشکر کو سواریوں کی قلت کا ( زیادہ پریشان کن) مرحلہ پیش آجائے گا؟ لہٰذا آپ ﷺ ان لوگوں کو ( اپنے اونٹ ذبح کرنے کی اجازت دینے کے بجائے) یہ حکم دیجئے کہ جس شخص کے پاس جو بچا ہوا توشہ ہو اس کو آپ ﷺ کے پاس لے آئے۔۔ الخ۔۔ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ کوئی شخص۔۔ الخ۔ اس ارشاد گرامی کے ذریعہ آنحضرت ﷺ نے اس حقیقت کو واضح فرمایا کہ جس شخص نے کامل یقین و اعتقاد کے ساتھ توحید و رسالت کی گواہی دی ( یعنی کملہ گو ہوا) اور پھر ذرا بھی تشکیک وترد رکھے بغیر اسی یقین و اعتقاد کے ساتھ اس حالت میں اس کا انتقال ہوگیا تو اس کو جنت میں جانے سے روکا نہیں جائے گا۔
Top