غزوئہ تبوک کے موقع کے تین اور معجزے
اور حضرت ابوحمید ساعدی ؓ کہتے ہیں کہ ہم رسول کریم ﷺ کے ساتھ غزوہ تبوک کے لئے ( مدینہ سے) روانہ ہو کر جب مدینہ سے تین دن کی مسافت پر واقع) وادی قریٰ میں پہنچے تو ایک باغ سے گزرے جو ایک عورت کا تھا، رسول کریم ﷺ نے ( اس باغ میں پہنچ کر ہم لوگوں سے فرمایا اندازہ کر کے بتاو اس باغ میں کتنے پھل ہونگے؟ ہم سب نے اپنا اپنا اندازہ بتایا ( کسی کا اندازہ کچھ ہوا اور کسی کا کچھ) پھر رسول کریم ﷺ نے بھی اندازہ کیا اور فرمایا کہ اس باغ میں دس وسق پھل ہوں گے۔ اس کے بعد اس عورت سے فرمایا ( جب پھل اتریں اور تم ان کا وزن کرو تو ( وزن کو یاد رکھنا تاآنکہ ہم لوٹ کر آئیں انشاء اللہ۔ وہاں سے روانہ ہو کر جب ہم تبوک پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ آج کی رات تم پر سخت آندھی آئے گی اس وقت کوئی شخص ( اپنی جگہ سے) کھڑا نہ ہو اور جس کے پاس اونٹ ہو وہ اس کے عقال ( رسی) مضبوطی سے باندھ دے ( مطلب یہ کہ آندھی سے حفاظت کے پیش نظر اس وقت کوئی شخص نہ تو چلے پھرے اور نہ اپنے اونٹ کو کھلی جگہ چھوڑ دے) چناچہ ( ایسا ہی ہوا کہ رات میں اتنی ( سخت آندھی آئی کہ ایک شخص کو جو آنحضرت ﷺ کی ہدایت کے مخالف کھڑا ہوگیا تھا، اڑا کرلے گئی اور طے کے پہاڑوں کے درمیان پھینک دیا۔ جب ہم ( غزوہ تبوک سے فارغ ہو کر) واپس ( مدینہ) روانہ ہوئے اور وادی قریٰ میں پہنچے تو رسول کریم ﷺ نے اس عورت سے باغ کے بارے میں پوچھا کہ ( اب بتاؤ) پھل کتنے ہوئے اس نے کہا دس وسق! ( بخاری ومسلم)
تشریح
طے دراصل اس مشہور قبیلہ کے مورث اعلی کا نام ہے جو قبیلہ طے کہلاتا ہے اور سابق جغرافیائی تقسیم کے مطابق یمن میں آباد تھا، مشہور تاریخی شخصیت حاتم طائی کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا، وہ علاقہ جہاں قبیلہ طے آباد تھا اور جو تلا دطے کہلاتا تھا اور وہاں کے پہاڑ جبال طے کے نام سے مشہور تھے، موجودہ جغرافیائی تقسیم میں سعودی عرب کے خطہ نجد میں شامل ہے اور منطقہ شمر کہلاتا ہے۔ اس حدیث میں گویا آنحضرت ﷺ کے تین معجزوں کا ذکر ہے، ایک تو پھلوں کا، کہ آپ ﷺ نے درخت پر لگے ہوئے پھلوں کا بالکل صحیح وزن بتادیا، دوسرا سخت آندھی کا معجزہ کہ آپ ﷺ نے کسی ظاہری علامت یا آثار کے نمودار ہوئے بغیر سخت آندھی کی پیش گوئی فرمائی جو جوں کی توں درست ہوئی اور تیسرا معجزہ یہ ہوا کہ جس شخص نے آپ ﷺ کی ہدایت پر عمل نہیں کیا اس کو آندھی نے اڑا لیا اور اتنی دور لے جا کر پھینک دیا۔ اس موقع پر ان تینوں معجزوں کا اظہار یا تو ان منافقوں پر آپ ﷺ کی نبوت کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے ہوا جو آپ ﷺ کے لشکر میں شامل تھے یا اہل ایمان کے یقین و اعتقاد کو مزید پختہ کرنے کے لئے۔