مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5866
وعن أنس قال كنا مع عمر بين مكة والمدينة فتراءينا الهلال وكنت رجلا حديد البصر فرأيته وليس أحد يزعم أنه رآه غيري قال فجعلت أقول لعمر أما تراه فجعل لا يراه قال يقول عمر سأراه وأنا مستلق على فراشي ثم أنشأ يحدثنا عن أهل بدر فقال إن رسول الله صلى الله عليه و سلم كان يرينا مصارع أهل بدر بالأمس يقول هذا مصرع فلان غدا إن شاء الله قال فقال عمر فوالذي بعثه بالحق ما أخطئوا الحدود التي حد رسول الله صلى الله عليه و سلم قال فجعلوا في بئر بعضهم على بعض فانطلق رسول الله صلى الله عليه و سلم حتى انتهى إليهم فقال يا فلان بن فلان ويا فلان بن فلان هل وجدتم ما وعدكم الله ورسوله حقا فإني قد وجدت ما وعدني الله حقا قال عمر يا رسول الله كيف تكلم أجسادا لا أرواح فيها قال ما أنتم بأسمع لما أقول منهم غير أنهم لا يستطيعون أن يردوا علي شيئا . رواه مسلم
جنگ سے پہلے ہی مقتول کافروں کے نام ان کی لاشیں گرنے کی جگہوں کی نشاندہی کا معجزہ
اور حضرت انس ؓ کہتے ہیں کہ (ایک سفر کے موقع پر) ہم لوگ حضرت عمر ابن خطاب کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان (ایک جگہ پر پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے) کہ وہاں ہم نے نئے مہینے کا چاند دیکھنے کی کوشش کی، میں چونکہ تیز نظر شخص تھا اس لئے میں نے چاند کو دیکھ لیا میرے علاوہ اور کوئی شخص نہیں تھا جس نے یہ کہا ہو کہ اس نے چاند دیکھا ہے میں عمر کو چاند دکھانے کی کوشش کرتے ہوئے ان سے کہتا تھا کہ کیا آپ کو چاند نظر نہیں رہا ہے (دیکھئے وہ کیا ہے) لیکن وہ چاند کو دیکھ نہیں پا رہے تھے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ (جب میرے باربار دکھانے پر بھی حضرت عمر کو چاند نظر نہیں آسکا تو) انہوں نے کہا بس رہنے دو ) میں تو عنقریب اپنے بستر پر لیٹا ہوا اس چاند کو دیکھ لوں گا۔ اس کے بعد حضرت عمر ؓ نے ہمارے سامنے (کافروں میں سے ان) اہل بدر کا ذکر شروع کردیا، جو جنگ بدر میں مارے گئے تھے) اور بیان کیا کہ رسول کریم ﷺ نے جنگ سے ایک دن پہلے ہی مارے جانے والے مشرکوں کے مقتول ہونے کی جگہ ہمیں بتادی تھیں چناچہ آپ (ایک ایک جگہ کی طرف اشارہ کر کے) فرماتے تھے کہ (دیکھو) یہ وہ جگہ ہے) جہاں کل انشاء اللہ فلاں مشرک مارا جائے گا اور یہ وہ جگہ ہے جہاں انشاء اللہ فلاں مشرک مرا ہوا پڑا ہوگا (گویا کہ آپ نے اہل اسلام کے ہاتھوں قتل ہونے والے مشرکوں کے نام لے لے کر ان کی نشاند ہی کردی تھیں بلکہ ان میں سے ہر ایک کے لئے الگ الگ جگہیں تک متعین کر کے بیان کردی تھیں جہان ان مشرکوں کی لاشیں پڑنے والی تھیں پھر حضرت عمر ؓ نے کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آنحضرت ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا، رسول کریم ﷺ نے جو جگہیں متعین کر کے بیان کی تھیں قتل ہونے والے مشرک ان سے ذرا بھی ادھر ادھر نہیں ہوئے (یعنی آپ ﷺ نے جس مشرک کے بارے میں جو جگہ متعین کر کے بتائی تھی وہ قتل ہو کر ٹھیک اسی جگہ گرا) پھر جب ان مشرکوں کی لاشوں کو ایک کے اوپر ایک کر کے (اس) کنویں میں ڈال دیا گیا (جو پانی لینے کے کام نہیں آتا تھا، تو رسول کریم ﷺ چل کر کنویں پر آئے اور ان (مشرکوں) کے نام لے لے کر (ان) کو مخاطب کیا اور فرمایا! اے فلاں ابن فلاں اور اے فلاں ابن فلاں کیا تم نے اس چیز کو حق اور درست پایا جس کا تم سے اللہ نے اور رسول نے وعدہ کیا تھا؟ میں نے تو اس چیز کو حق اور درست پایا جس کا مجھ سے میرے اللہ نے وعدہ فرمایا تھا۔ عمر نے (یہ بیان کیا کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو ان مشرکوں کی لاشوں سے اس طرح مخاطب دیکھ کر) عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! آپ ایسے جسموں سے کس طرح مخاطب ہیں جو روحوں سے خالی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو کچھ کہہ رہا ہوں اس کو تم ان سے زیادہ سننے والے نہیں ہو ہاں وہ جواب دینے کی قدرت نہیں رکھتے (مطلب یہ کہ میری یہ بات جس طرح تم نے سنی ہے اس طرح ان سب نے بھی سنی ہے بس فرق یہ ہے کہ جواب دینے کی قدرت ان کو حاصل نہیں ہے۔ (مسلم)

تشریح
میں تو عنقریب اپنے بستر پر لیٹا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ الخ۔ ان الفاظ کے ذریعہ دراصل حضرت عمر نے ؓ اس چاند کو دیکھنے کے لئے زیادہ جدوجہد اور کوشش کے غیر ضروری ہونے کی طرف اشا رہ کیا، ان کا مطلب یہ تھا کہ جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے چاند دیکھ لیا ہے ان کی شہادت پر روایت ثابت ہوجائے گی، یا یہ کہ مجھے خود نیا چاند دیکھنا ہی ہوگا تو کچھ دنوں کے بعد یا اگلے دن جب چاند زیادہ بڑا اور زیادہ روشن ہوجائے گا اور آسانی سے نظر آجائے گا تو دیکھ لونگا، اس وقت چاند مجھے نظر نہیں آرہا ہے تو اس کو دیکھنے کے لئے زیادہ تعب اور مشقت اٹھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو چیز ضروری نہ ہو اس کی کھوج کرید میں اپنا وقت اور اپنی طاقت ضائع کرنا ایک لایعنی چیز میں وقت اور طاقت جیسی قیمتی چیز گنوانا ہے۔
Top