Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
Hadith (5792 - 5871)
Select Hadith
5792
5793
5794
5795
5796
5797
5798
5799
5800
5801
5802
5803
5804
5805
5806
5807
5808
5809
5810
5811
5812
5813
5814
5815
5816
5817
5818
5819
5820
5821
5822
5823
5824
5825
5826
5827
5828
5829
5830
5831
5832
5833
5834
5835
5836
5837
5838
5839
5840
5841
5842
5843
5844
5845
5846
5847
5848
5849
5850
5851
5852
5853
5854
5855
5856
5857
5858
5859
5860
5861
5862
5863
5864
5865
5866
5867
5868
5869
5870
5871
مشکوٰۃ المصابیح - معجزوں کا بیان - حدیث نمبر 5957
وعن عمران بن حصين قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : خير أمتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم إن بعدهم قوما يشهدون ولا يستشهدون ويخونون ولا يؤتمنون وينذرون ولا يفون ويظهر فيهم السمن . وفي رواية : ويحلفون ولا يستحلفون . متفق عليه وفي رواية لمسلم عن أبي هريرة : ثم يخلف قوم يحبون السمانة
صحابہ ؓ کی برکت
اور حضرت عمران ابن حصین ؓ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا میری امت کے بہترین لوگ میرے قرن کے لوگ (یعنی صحابہ ہیں پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں (یعنی تابعی) اور پھر وہ لوگ جو ان سے متصل ہیں۔ اور پھر ان قرنوں کے بعد جن لوگوں کا زمانہ آئے گا ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو نذر مانیں گے اور اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے اور ان میں موٹاپا فربہی پیدا ہوگی اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جو (بلاضروت وبلاوجہ) قسمیں کھائیں گے حالانکہ ان کو قسم نہیں دلائی جائے گی، (بخاری ومسلم) اور مسلم کی ایک روایت میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے منقول ہے یہ الفاظ ہیں کہ پھر ان لوگوں کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو موٹاپے کو یعنی فربہی کو پسند کریں گے۔
تشریح
قرن عہد زمانہ کو کہتے ہیں، جس کی مقدار بعض حضرات نے چالیس سال، بعض نے اسی سال اور بعض نے سو سال مقرر کی ہے لیکن صحیح یہ ہے کہ قرن کا اطلاق ماہ وسال کے تعین کے اعتبار سے محدود عہد زمانہ پر نہیں ہوتا بلکہ ہو وہ عہد یا زمانہ قرن کہلاتا ہے جو تقریبا یکساں عمر رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہو گویا قرن جو لفظ اقتران سے ماخوذ ہے ایسی مقدار ہے جس میں اس زمانہ کے لوگ اپنی عمروں اور احوال کے اعتبار سے ایک دوسرے کے نزدیک ہوتے ہیں پس آنحضرت ﷺ کے قرن سے مراد صحابہ کا قرن ہے۔ اس قرن کی ابتدازمانہ رسالت سے ہوتی ہے اور اس کا آخر وہ زمانہ ہے جب تک کہ ایک صحابی بھی دنیا میں باقی رہا یعنی ١٢٠ ھ تک دوسرا قرن کہ تابعین کا قرن ہے ١٠٠ ھ سے ١٧٠ ھ تک کے زمانہ پر مشتمل ہے اور تیسرا قرن کہ جو اتباع تابعین کا قرن ہے۔ تابعین کے قرن کے بعد سے شروع ہو کر تقریبا ٢٢٠ ھ تک کے زمانہ پر مشتمل ہے اس قرن کے بعد اس مخصوص خیروبرکت کا سلسلہ ختم ہوگیا جو قرن اول (یعنی زمانہ رسالت اور قرن صحابہ) اور اس سے ملے ہوئے دونوں قرنوں کو زبانی فرق کی نسبت سے کم وبیش حاصل رہی پھر تو بدعتوں کا ظہور شروع ہوگیا دین کے نام پر عجیب و غریب چیزیں پیدا ہونے لگیں، فلاسفہ اور نام نہاد عقلاء نے سر اٹھائے، معتزلہ کا جنم ہوا اور انہوں نے دین کو مسخ کرنے کا بیڑہ اٹھایا، قرآن کو مخلوق کہنے کا فتنہ اٹھا، جس نے اہل علم کو زبردست آزمائش و امتحان سے دوچار کیا لوگوں کی دینی زندگی کو گھن لگنے لگا، نت نئے افکار و خیالات جنم لینے لگے، اختلاف ونزاعات پھیلنے لگے، آخرت کا خوف کم ہوا اور دنیا کی طرف رجحان بڑھنے لگا کہ جس کی خبرمخبر صادق ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمائی۔ جو خود بخود گواہی دینگے اور کوئی ان کی گواہی نہ چاہے گا حدیث کے ان الفاظ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بغیر طلب گواہی دینا ایک بری حرکت ہے جب کہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ گواہوں میں بہتر وہ گواہ ہے جو گواہی دے اس سے پہلے کہ اس سے گواہی کی درخواست کی جائے بظاہر ان دونوں حدیثوں میں تعارض ہے لیکن درحقیقت ان کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے کیونکہ بغیر طلب گواہی دینے کی برائی ظاہر والی حدیث کا تعلق اس شخص سے ہے، جس کے بارے میں معلوم ہو کہ وہ فلاں واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہے لیکن اس کے باوجود صاحب معاملہ (مثلا مدعی) نہ تو اس سے گواہی دینے کی درخواست کرتا ہے اور نہ اس کو عدالت میں بطور گواہ پیش کرنا چاہتا ہے، ایسی صورت میں اگر وہ شخص از خود (بغیرطلب) گواہی دیتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس کی گواہی کے کوئی معنی کے کوئی معنی تو ہوگے نہیں البتہ یہ ضرور ثابت ہوگا کہ وہ اس گواہی کے پردہ میں کوئی فاسد غرض رکھتا ہے، اس کے برخلاف اگر یہ صورت ہو کہ ایک شخص کسی واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہے لیکن اس کا گواہ ہونا صاحب معاملہ کو معلوم نہیں، وہ دیکھ رہا ہے کہ اگر میں نے گواہی نہ دی تو ایک مسلمان بھائی کا حق ڈوب جائے گا یا اس کو بلاوجہ کوئی مالی نقصان اٹھاناپڑے گا، اس جذبہ خیر کے ساتھ وہ صاحب معاملہ کو بتاتا ہے کہ میں اس واقعہ یا معاملہ کا گواہ ہوں اور اگر تم چاہو تو تمہاری طرف سے عدالت میں پیش ہو کر گواہی دے سکتا ہوں، بغیر طلب گواہی دینے والا ایسا شخص یقینا قابل تعریف ہوگا اور کہا جائے گا کہ دوسری حدیث (جس میں بغیرطلب گواہی دینے والے کو بہترین گواہ فرمایا گیا ہے) ایسے شخص کو کے حق میں ہے۔ یا یہ کہ بغیر طلب گواہی دینے کی اچھائی بیان کرنے والی حدیث دراصل اس بات کو مبالغہ کے طور پر یعنی زیادہ سے زیادہ شدت اور تاکید کے ساتھ بیان کرنے کے لئے ہے کہ جو شخص کسی واقعہ یا معاملہ کا سچا گواہ ہو اس کو چاہئے کہ گواہی دینے سے اعراض نہ کرے اور جب اس سے کوئی گواہی طلب کی جائے تو دیر نہ کرے فورا حاضر ہو اور گواہی نہ چھپائے، اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بغیر طلب کے گواہی دینے کی برائی ظاہر کرنے والی حدیث اس شخص کے حق میں ہے جو گواہ بننے کا اہل نہ ہو یا اس شخص پر محمول ہے جو جھوٹی گواہی دے بعض حضرات نے یہ لکھا ہے کہ بغیر طلب گواہی دینے کی برائی بیان کرنے والی اس حدیث کا تعلق حقوق العباد سے متعلق گواہی دینے سے ہے اور اچھائی بیان کرنے والی حدیث کا محمول حقوق اللہ سے متعلق گواہی دینا ہے لیکن یہ اس صورت میں ہے جب کہ گواہی کو چھپانے میں مصلحت نہ ہو اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ اس حدیث میں شہادت سے مراد سوگند (قسم) ہے اس صورت میں حدیث کے ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہوگا ان میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو جھوٹی قسم کھائیں گے اس سے پہلے کہ کوئی ان کو قسم دے اور قسم کھلوائے۔ جو خیانت کریں گے اور ان کی دیانت و امانت پر اعتماد نہیں کیا جائے گا کا مطلب یہ ہے کہ خیانت و بددیانتی میں وہ اس قدر جری اور مشہور ہوجائیں گے کہ لوگ ان کو امانت دار اور بادیانت ماننا چھوڑ دیں گے اور ان کو امانت کے وصف سے خالی سمجھا جائے گا۔ ہاں اگر کسی سے کبھی کبھار کوئی خیانت سرزد ہوجائے تو اس اعتبار نہیں۔ جو نذر مانینگے اور اپنی نذر کو پورا نہیں کریں گے یعنی نہ صرف یہ کہ نذر پوری نہیں کریں گے بلکہ اس بات کو اہمیت بھی نہیں دینگے کہ نذر مان کر اس کا پورا نہ کرنا کتنی بری بات ہے۔ حالانکہ نذر پوری کرنا لازم ہے اور اللہ کے جو نیک بندے اس پر عمل کرتے ہیں ان کی تعریف قرآن میں بیان کی گئی ہے یؤ فون بالنذر ویخافون یوما کان شرہ مستطیرا۔ وہ (اللہ کے نیک بندے) نذر پوری کرتے ہیں اور اس (قیامت کے) دن سے ڈرتے ہیں۔ اور ان میں موٹاپا یعنی فربہی پیدا ہوگی لفظ سمن کے معنی موٹاپے، کے ہیں جو بہت کھانے پینے اور تنعم وترفہ کے سبب پیدا ہوتا ہے پس یہاں وہ موٹاپا مراد نہیں ہے جو خلقی اور طبعی طور پر ہو۔ بعض حضرات نے لکھا ہے کہ یہاں فربہی سے مراد احوال میں فربہی ہے یعنی فخر وشیخی کی راہ سے اپنے تئیں مالدار اور خوشحال ظاہر کریں گے اور عزت وشرف کی ان باتوں کا دعوی کریں گے جو سرے سے ان میں نہیں ہوں گی اور بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ فربہی سے مراد مال و دولت جمع کرنا اور تن پروری میں مشغول رہنا ہے۔ تورپشتی نے لکھا ہے ان میں فربہی پیدا ہوگی کے الفاظ دراصل اس بات سے کنایہ ہیں کہ دینی معاملات اور احکام شریعت کی بجاآوری میں غفلت و کوتاہی کا شکار ہوں گے اور اوامرونواہی کو ملحوظ رکھنے کا اہتمام نہیں کریں گے جو دین و شریعت کا اصل تقاضا ہیں۔ اس بات کو فربہی سے تعبیر کرنے کی وجہ مناسبت یہ ہے کہ عام طور پر موٹے لوگ سست وکاہل ہوتے ہیں، محنت ومشقت سے جی چراتے ہیں نفس کو ریاضت میں ڈالنے سے کتراتے ہیں۔ اور ان کا زیادہ تراہتمام نفس کی لذت کو شی، تن پروری اور راحت و آرام کے ساتھ اپنے بستروں پر پڑے رہنے تک محدود رہتا ہے۔ شرح مسلم میں لکھا ہے کہ علماء نے وضاحت کی ہے کہ وہ فربہی مذموم ہے، جو (عیش وتنعم کے ذریعہ) قصدا پیدا کی جائے۔ خلقی و طبعی فربہی نہ مذموم ہے نہ اس پر اس طرح کی روایتوں کا اطلاق ہوتا ہے! اس وضاحت سے اس روایت کے معنی بھی صاف ہوجاتے ہیں جس میں فرمایا گیا ہے ان اللہ یبغض الحبر السمین۔ اللہ تعالیٰ فربہ عالم کو سخت ناپسند کرتا ہے۔
Top