مشکوٰۃ المصابیح - قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والی نشانیاں اور دجال کا ذکر - حدیث نمبر 1273
عن أبي بكرة رضي الله عنه قال : خطبنا النبي صلى الله عليه و سلم يوم النحر قال : إن الزمان قد استدار كهيئته يوم خلق الله السماوات والأرض السنة اثنا عشر شهرا منها أربعة حرم ثلاث متواليات ذو القعدة وذو الحجة والمحرم ورجب مضر الذي بين جمادى وشعبان وقال : أي شهر هذا ؟ قلنا : الله ورسوله أعلم فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه فقال : أليس ذا الحجة ؟ قلنا : بلى . قال : أي بلد هذا ؟ قلنا : الله ورسوله أعلم فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه قال : أليس البلدة ؟ قلنا : بلى قال فأي يوم هذا ؟ قلنا : الله ورسوله أعلم فسكت حتى ظننا أنه سيسميه بغير اسمه . قال : أليس يوم النحر ؟ قلنا : بلى . قال : فإن دماءكم وأموالكم وأعراضكم عليكم حرام كحرمة يومكم هذا في بلدكم هذا في شهركم هذا وستلقون ربكم فيسألكم عن أعمالكم ألا فلا ترجعوا بعدي ضلالا يضرب بعضكم رقاب بعض ألا هل بلغت ؟ قالوا : نعم . قال : اللهم اشهد فليبلغ الشاهد الغائب فرب مبلغ أوعى من سامع
نفل نماز گھر میں پڑھنے کی فضیلت
اور حضرت زید بن ثابت ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا آدمی کی اپنے گھر میں پڑھی ہوئی نماز اس نماز سے بہتر ہے جو میری مسجد (یعنی مسجد نبوی) میں پڑھی جائے علاوہ فرض کے (کہ فرض نماز مسجد میں ہی پڑھنی بہتر ہے)۔ (ابوداؤد، جامع ترمذی )

تشریح
باوجود یہ کہ مسجد نبوی میں ایک نماز کا ثواب ہزار نماز کے ثواب کے برابر ہوتا ہے لیکن نفل نمازوں کو گھروں میں ہی پڑھنا مسجد نبوی میں نفل نماز پڑھنے سے افضل قرار دیا گیا ہے کیونکہ گھروں میں پڑھی گئی نماز ریا و نمائش کے جذبے سے بالکل پاک و صاف ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد اس وقت کا ہے جب کہ آپ ﷺ نے رمضان میں چند شب کا قیام ترک کردیا تھا اور اس کا عذر بیان کرتے ہوئے گھروں میں نماز پڑھنے کی فضیلت بیان کی اور پھر فرمایا کہ جاؤ اپنے گھرو میں نماز پڑھو! نماز تراویح گھر میں پڑھنا افضل ہے یا مسجد میں اس حدیث سے استنباط کرتے ہوئے حضرت امام مالک، حضرت امام ابویوسف اور بعض شوافع نے یہ کہا ہے کہ نماز تراویح کے سلسلے میں افضل یہ ہے کہ یہ نماز گھر میں تنہا پڑھی جائے جہاں تک رسول اللہ ﷺ کے عمل کا سوال ہے کہ آپ نے نماز تراویح مسجد میں پڑھی ہے تو اس بارے میں ان حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مسجد میں نماز تراویح بیان جواز کے خاطر پڑھی تھی۔ مزید یہ کہ آپ ﷺ معتکف تھے۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، شوافع علماء کی اکثریت اور بعض مالکیہ حضرات کا متفقہ طور پر مسلک ہے کہ نماز تراویح کا مسجد میں پڑھنا ہی افضل ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق ؓ اور اس کے بعد کے دوسرے صحابہ کرام نے اس نماز کو مسجد ہی میں پڑھنا مقرر کیا اور پھر اسی پر تمام مسلمانوں کا ہمیشہ عمل رہا، کیونکہ نماز تراویح شعار دین ہے۔ اور نماز عیدین کے مشابہ ہے۔ فقہ کی کتابوں میں اس مسئلے میں مختار اور بہتر طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی ایسا آدمی ہو جو مسلمانوں کی پیشوائی و رہبری کے مرتبے پر فائز ہو اور اس کی وجہ سے جماعت میں کثرت ہوتی ہو تو اسے چاہیے کہ وہ نماز تراویح مسجد میں پڑھے اور اگر ایسا نہیں ہے تو پھر جائز ہے کہ گھر ہی میں پڑھ لی جائے
Top