مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5921
وعن ابن عمر أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : لا يزال هذا الأمر في قريش ما بقي منهم اثنان . متفق عليه
خلافت اور قریش
اور حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا یہ امر یعنی خلافت ہمیشہ قریش میں رہے گا جب تک کہ ان میں سے دو آدمی بھی باقی رہیں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
ہمیشہ قریش میں رہے گا کا مطلب یہ ہے کہ خلافت کا استحقاق چونکہ قریش ہی سب سے زیادہ رکھتے ہیں اس لئے خلافت کا منصب جلیلہ قریش ہی کے پاس رہنا چاہئے اور غیر قریش کو خلیفہ بنانے کا فیصلہ شرعا جائز نہیں چناچہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں اس پر اجماع تھا اور یہی ارشاد گرامی ان انصار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مقابلہ پر مہاجر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی دلیل کی بنا جنہوں نے خلافت کو انصار کا حق قرار دینا چاہا تھا۔ جب تک کہ ان میں دو آدمی باقی رہے یہ بات آپ ﷺ نے منصب خلافت کے تئیں قریش کے ترجیحی استحقاق کو زیادہ سے زیادہ اہمیت کے ساتھ بیان کرنے کے لئے فرمائی کہ اگر قریش میں سے دو بھی باقی رہیں کہ ایک تو خلیفہ بن سکے اور دوسرا اس کا اطاعت گذار (یا یہ کہ خلیفہ کے علاوہ دو آدمی مراد ہیں) تو اس صورت میں بھی خلافت کو قریش ہی کا حق سمجھنا چاہئے۔ اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی (رح) لکھتے ہیں یہ اور اس جیسی دوسری احادیث کو جن میں خلافت کا استحقاق قریش کے لئے ذکر کیا گیا ہے، اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ خلافت کا منصب قریش کے لئے مخصوص ہے غیر قریشی کو خلیفہ بنانا جائز نہیں ہے چناچہ اسی نکتہ پر نہ صرف صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے زمانہ میں بلکہ صحابہ کرام کے بعد بھی امت کا اجماع رہا ہے، اہل بدعت یعنی اہل سنت والجماعت کے متفقہ مسلک سے انحراف کرنے والوں میں سے جن لوگوں نے اس مسئلہ میں اختلاف و انکار کی راہ اختیار کی (ان کی بات کو نہ صرف یہ امت کے سواد اعظم نے تسلیم نہیں کیا) بلکہ ان کی ترید وتغلیط کے لئے یہی دلیل پیش کی گئی کہ قریش کے استحقاق خلافت پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع تھا امام نووی نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس ارشاد گرامی کے ذریعہ یہ خبر دی ہے کہ یہ حکم (جس سے منصب خلافت کا قریش کے ساتھ مخصوص ہونا ظاہر ہوتا ہے) آخر زمانہ تک برابر جاری ونافذ رہے گا جب تک کہ اس دنیا میں دو آدمی بھی باقی رہیں پس آنحضرت ﷺ نے جو کچھ فرمایا اور جو خبر دی وہی واقعہ کے اعتبار سے ثابت بھی ہوا کہ آج تک قریش کی خلافت اور ان کی بالا دستی قائم ہے لیکن امام نووی (رح) کا یہ نتیجہ بیان کرنا تاریخی حقیقت کے مطابق نہیں ہے، ان کے زمانہ تک تو قریش کی خلافت قائم تھی لیکن بعد میں قریش کی خلافت و امامت تمام عالم اسلام پر زیادہ عرصہ تک باقی نہیں رہ سکی، ابتداء میں کچھ اوپر دو سو برس تک کا عرصہ تو ایسا گذرا کہ اس میں اکثر اسلامی علاقوں اور شہروں پر قریش کی خلافت وبالادستی قائم رہی مگر اس کے بعد خود مختاریوں کا دور شروع ہوگیا اور عالم اسلام میں مختلف حکمرانوں اور بادشاہوں کی اپنی اپنی حکومت وبالادستی قائم ہوگئی لہٰذا اس سلسلہ میں تحقیقی قول یہ ہے کہ یہ خبر دراصل امر یعنی حکم کے معنی میں ہے گویا آنحضرت ﷺ نے خبر کے اسلوب میں یہ حکم دیا ہے کہ جو بھی شخص ایمان واسلام سے بہرہ ور ہو اس پر لازم ہے کہ وہ قریش کو اپنا سردار مانے، ان کی اتباع کرے اور ان کی امامت و قیادت سے انحراف نہ کرے، ویسے یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد گرامی اپنے ظاہری معنی ہی پر محمول ہے مگر مااقاموا الدین کے الفاظ کے ساتھ مقید ہے جو اگلی حدیث میں مذکور ہیں، اس صورت میں اس حدیث کا یہ مطلب ہوگا کہ منصب خلافت وامارت اس وقت تک برابر قریش میں رہے گا جب تک کہ وہ دین کو قائم رکھیں گے چناچہ یہی ہوا کہ قریش نے جب تک کہ خلافت کو دین کے تابع رکھا اور اسلام کی خدمت و اشاعت میں مصروف رہے منصب خلافت ان کے ہاتھ سے نہیں گیا، لیکن جب انہوں نے نہ صرف یہ کہ دین کی طرف سے بےتوجہی اختیار کرلی بلکہ حرام و ناجائز امور میں مبتلا ہو کر دین کی بےحرمتی کا مظاہرہ کرنے لگے تو خلافت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ سے چھن کر غیر قریش میں پہنچ گئی۔
Top