مشکوٰۃ المصابیح - قریش کے مناقب اور قبائل کے ذکر سے متعلق - حدیث نمبر 5932
وعن عمران بن حصين قال : مات النبي صلى الله عليه و سلم وهو يكره ثلاثة أحياء : ثقيف وبني حنيفة وبني أمية . رواه الترمذي وقال : هذا حديث غريب
تین قبیلوں کے بارے اظہارناپسندیدگی
اور حضرت عمران ابن حصین کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ تین قبیلوں، ثقیف، بنوحنیفہ اور بنوامیہ، سے ناخوش اس دنیا سے تشریف لے گئے اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث غریب ہے۔

تشریح
مذکورہ بالا تینوں قبیلوں میں ایسے افراد پیدا ہوئے جن سے اسلام کے مخالفین کو فائدہ پہنچا اور مسلمانوں کو شدید رنج والم اور مصائب سے دوچار ہونا پڑا اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو آگاہ کردیا تھا کہ آگے چل ان قبائل سے کیسے کیسے فتنے اور کیسے کیسے ظالم لوگ پیدا ہوں گے اس لئے آنحضرت ﷺ ان تینوں قبیلوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتے تھے، چناچہ ثقیف تو وہ قبیلہ ہے جس میں حجاج ابن یوسف جیسا مشہور شخص پیدا ہوا، بنوحنیفہ وہ قبیلہ ہے جس میں مسیلمہ کذاب جیسے فتنہ ساز کو جنم دیا اور بنوامیہ وہ قبیلہ ہے جس میں عبیداللہ ابن زیاد پیدا ہوا، یہ وہی عبیداللہ ابن زیاد ہے جو یزید ابن معاویہ کی طرف سے کوفہ وبصرہ کا گورنر تھا اور جس نے محض دربار امارت میں خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنی ماتحت فوج سے حضرت سید الشہداء امام حسین کو شہید کرایا، عبید ابن زیاد انتہائی بدبخت اور کمینہ شخص تھا، منقول ہے کہ جب اس کی فوج کے لوگ میدان کربلا سے حضرت سید الشہداء حضرت حسین کا سر مبارک لے کر اس کے پاس آئے تو اس نے سر مبارک کو ایک طشت میں رکھوایا اور ایک چھڑی کے ذریعہ اس پر ضربیں لگاتا جاتا اور جگر گوشہ رسول ﷺ کی شان میں گستاخانہ کلمات بکتا جاتا، لیکن اس بدنصیب کا انجام بھی بہت برا ہوا، نہایت بےدردی کے ساتھ ایک جنگ میں مارا گیا اور ترمذی نے اپنی جامع میں عمارہ ابن عمیر سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے بیان کیا ہے کہ، جب عبیداللہ ابن زیاد میدان جنگ میں مارا گیا تو (اس کی دشمن فوج نے اس کی بےسر لاش کو نذر آتش کردیا پھر) اس کے فوجی اس کا سر لے کر شہر میں آئے اور مسجد کے چبوترے پر رکھ دیا جہاں اس کے دوسرے ساتھی اور حوالی موالی بیٹھے ہوئے تھے، عمارہ ابن عمیر کہتے ہیں کہ اس موقع پر میں بھی وہاں پہنچ گیا، پھر میں نے دیکھا کہ اس کے ساتھیوں نے چلانا شروع کیا وہ آیا وہ آیا (میں نے حیرت کے ساتھ دیکھا تو) اچانک ایک سانپ آتا ہوا دکھائی دیا اور پھر وہ سانپ (بڑی تیزی کے ساتھ عبیداللہ ابن زیاد کے سر کی طرف بڑھا اور) اس کی ناک میں گھس گیا، تھوڑی سی دیر اندر رہا اور پھر باہر نکل کر چلتا بنا یہاں تک کہ نظروں سے غائب ہوگیا (یہ ششدرکن منظر دیکھ کر ابھی لوگوں پر حیرانی و سراسیمگی طاری ہی تھی کہ) اچانک انہوں نے پھر شور کیا، وہ آیا دیکھو وہ سانپ پھر آرہا ہے اتنے میں وہ سانپ سر کے پاس پہنچ کر پھر نتھنے میں گھس کر اندر چلا گیا اور کچھ دیر کے بعد باہر نکل کر چلتا بنا اسی طرح دو یا تین بار ہوا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حدیث کی وضاحت میں بنو امیہ کے تحت صرف عبیداللہ ابن زیاد کا ذکر کیوں کیا گیا ہے حالانکہ یزید ابن معاویہ بھی بنوامیہ میں سا تھا اور اس اعتبار سے اس کا ذکر کرنا زیادہ ضروری تھا کہ عبیداللہ ابن زیاد اسی کا مقرر کردہ گورنر اور اس کا ماتحت تھا اور عبیداللہ ابن زیاد نے جو کچھ کیا یزید کے حکم اور اس کی رضامندی سے کیا، لیکن اس بات کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں ہے بنوامیہ کے باقی لوگوں نے اپنی بدذاتیوں میں کونسی کسر اٹھا رکھی تھی، دولت و اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہو کر انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے والی حرکت جو جو حرکتیں کیں وہ سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہیں ایک یزید ابن معاویہ یا عبیداللہ ابن زیاد ہی کو کیا کہا جائے، مقصدت بنوامیہ کی برائی بیان کرنا تھا، علامتی طور پر عبیداللہ ابن زیاد کا ذکر کردیا گیا اب اور سب کو اسی پر قیاس کیا جاسکتا ہے ایک حدیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک دن خواب میں دیکھا کہ کچھ بندر مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھیل تماشہ دکھا رہے ہیں، آپ ﷺ نے اس خواب کی تعبیر میں بنوامیہ کا ذکر کیا
Top