مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عمر کے مناقب وفضائل کا بیان - حدیث نمبر 5998
عن أنس وابن عمر أن عمر قال : وافقت ربي في ثلاث : قلت : يا رسول الله لو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى ؟ فنزلت [ واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى ] . وقلت : يا رسول الله يدخل على نسائك البر والفاجر فلو أمرتهن يحتجبن ؟ فنزلت آية الحجاب واجتمع نساء النبي صلى الله عليه و سلم في الغيرة فقلت [ عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن ] فنزلت كذلك وفي رواية لابن عمر قال : قال عمر : وافقت ربي في ثلاث : في مقام إبراهيم وفي الحجاب وفي أسارى بدر . متفق عليه
موافقات عمر
حضرت انس اور حضرت ابن عمر راوی ہیں کہ حضرت عمر نے فرمایا تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ﷺ اگر مقام ابراہیم کو ہم نماز پڑھنے کی جگہ بنائیں تو بہتر ہو (یعنی طواف کعبہ کے بعد کی دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں اگر وہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھی جائیں تو زیادہ بہتر رہے گا) پس یہ آیت نازل ہوئی ( وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى) 2۔ البقرۃ 125) اور بناؤ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ۔ اور (دوسری بات یہ کہ) میں نے عرض کیا تھا یا رسول اللہ ﷺ آپ ﷺ کی ازواج مطہرات کو پردہ میں رہنے کا حکم فرمادیں (تاکہ غیر محرم لوگوں کے سامنے ان کا آنا بند ہوجائے) تو بہتر ہو۔ پس (میرے اس عرض کرنے پر) پردہ کی آیت نازل ہوئی۔ اور (تیسری بات یہ کہ) جب نبی کریم ﷺ کی بیبیوں نے رشک و غیرت والے معاملہ پر اتفاق کرلیا تھا۔ تو میں نے (ان سب کو مخاطب کر کے) کہا تھا اگر آنحضرت ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار جلد تمہارے بدلے ان کو اچھی بیبیاں دے دے گا پس میرے انہی الفاظ و مفہوم میں یہ آیت نازل ہوئی۔ اور حضرت ابن عمر کی ایک روایت میں یوں ہے کہ انہوں نے بیان کیا حضرت عمر نے فرمایا تین باتوں میں میرے پروردگار کا حکم میری رائے کے مطابق نازل ہوا، ایک تو مقام ابراہیم (کو نماز ادا کرنے کی جگہ قرار دینے) کے بارے میں دوسرے (آنحضرت ﷺ کی بیبیوں کے) پردے کے بارے میں اور تیسرے بدر کے قیدیوں کے بارے میں۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
حافظ عسقلانی نے لکھا ہے کہ یہاں صرف تین باتوں کے ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ موافقات عمر کی تعداد تین سے زائد نہ ہودر حقیت ان مواقع کی تعداد تین سے کہیں زیادہ ہے جن میں حضرت عمر کی رائے اور مشورہ کے مطابق حکم الہٰی نازل ہوا ان میں جو زیادہ مشہور ہیں وہ تو ایک بدر کے قیدیوں ہی کا معاملہ ہے، ایک منافقوں کی نماز جنازہ پڑھنے والا واقعہ بھی ہے اسی طرح بعض محققین نے تلاش و جستجو کے بعد جن موافقات عمر کو جمع کیا ہے ان کی تعداد پندرہ سے زائد ہوتی ہے (جیسا کہ علامہ سیوطی نے بیس موافقات عمر کا ذکر کیا ہے) مقام ابراہیم سے مراد وہ پتھر ہے جس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے قدم مبارک کا نشان بطور معجزہ پڑگیا تھا اور جس پر کھڑے ہو کر آپ بیت اللہ کی چنائی کرتے تھے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمر کا ہاتھ پکڑ کر بتایا کہ مقام ابراہیم ہے اس وقت حضرت عمر نے کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ کیا یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم اس مقام کو نماز پڑھنے کی جگہ بنالیں؟ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مجھے اس بارے میں کوئی حکم نہیں دیا گیا ہے۔ اور پھر اسی دن آفتاب غروب بھی نہیں ہوا تھا کہ مذکورہ آیت نازل ہوئی جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر طواف کے بعد جو دو رکعتیں پڑھنی واجب ہیں وہ مقام ابراہیم کے پاس (اس طرح) پڑھا کرو (کہ مقام ابراہیم بھی سامنے رہے اور بیت اللہ بھی) اس آیت میں امر کا صیغہ استحباب کے لئے ہے اور بعض حضرات نے وجوب کے لئے کہا ہے، یعنی طواف کے بعد دو رکعتیں پڑھنی تو واجب ہیں لیکن مستحب یہ ہے کہ یہ دونوں رکعتیں خاص مقام ابراہیم کے پیچھے متصلاً پڑھی جائیں۔ ہاں جس شخص کو خاص مقام ابراہیم کے پیچھے جگہ نہ ملے اور حرم میں کسی بھی جگہ یہ رکعتیں پڑھ لے تو اس حکم کی پوری تعمیل ہوجائے گی۔ امام شافعی کے مسلک میں ان دو رکعتوں کے وجوب کے بارے میں دو قول ہیں۔ پس پردہ کی آیت نازل ہوئی اور آیت یہ ہے۔ (فَسْ َ لُوْهُنَّ مِنْ وَّرَا ءِ حِجَابٍ ) 33۔ الاحزاب 53) اور جب تم ان ( ازواج النبی ﷺ سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو۔ واضح رہے کہ ازواج مطہرات پر جو یہ پردہ واجب ہوا تھا وہ اس ستر عورت کے علاوہ ہے جو اور تمام عورتوں پر واجب ہے یعنی اس آیت کے ذریعہ ان ازواج مطہرات کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ غیر محرموں کے سامنے بالکل نہ آئیں اگرچہ کپڑوں میں لپٹی اور چھپی ہوئی ہی کیوں نہ ہوں یہ حکم خاص طور پر صرف ازواج مطہرات کو دیا گیا تھا، جب کہ اور عورتوں کو اجازت ہے کہ اگر اپنے جسم کو خوب ڈھانک چھپا کر وہ باہر نکلنا چاہیں تو نکل سکتی ہیں۔ رشک و غیرت والے معاملہ پر اتفاق کرلیا تھا اس سے آنحضرت ﷺ کے شہد پینے سے متعلق مشہورواقعہ مراد ہے آنحضرت ﷺ کا معمول تھا کہ عصر کے بعد کھڑے کھڑے اپنی ازواج کے پاس تشریف لاتے تھے۔ ایک مرتبہ اسی معمول کے مطابق آپ ﷺ ایک زوجہ مطہرہ حضرت زینب کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے کہیں سے آیا ہوا شہد آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا جو آپ ﷺ کو بہت مرغوب تھا اور اسی وجہ سے حضرت زینب نے آپ ﷺ کے لئے رکھ چھوڑا تھا، شہد پینے میں آپ کو کچھ وقت لگا۔ اور اس سبب سے حضرت زینب کے یہاں آپ ﷺ معمول سے زیادہ ٹھہرے رہے۔ یہ بات حضرت عائشہ اور بعض دوسری مطہرات کے لئے رشک و غیرت کا باعث بن گئی، ام المؤمنین حضرت عائشہ نے ام المؤمنین حضرت حفصہ (بنت عمر) سے مشورہ کیا اور دونوں اس رائے پر متفق ہوگئیں کہ آنحضرت ﷺ ہم جس کے پاس بھی تشریف لائیں وہ یوں کہے کہ آپ ﷺ میں سے مغافیر کی بوآرہی ہے۔ اور پھر جب آنحضرت ﷺ ان کے ہاں تشریف لائے تو ان میں سے ہر ایک نے یوں ہی کہا آنحضرت ﷺ نے فرمایا میں نے تو مغافیر کو ہاتھ بھی نہیں لگایا، صرف شہد پیا تھا، پھر مغافیر کی بو کہاں سے آئی انہوں نے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ اس شہد کی مکھیاں مغافیر پر بیٹھ گئی ہوں، جس کے سبب اس شہد میں مغافیر کی بو شامل ہوگئی ہو۔ اس بات سے ان کا مقصد یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ شہد پینے کے لئے آئندہ حضرت زینب کے یہاں نہ ٹھہریں۔ مگر آنحضرت ﷺ نے ان کی بات کو صداقت پر محمول کیا اور احتیاط شہد پینا اپنے اوپر حرام کرلیا۔ پھر بعد میں سارا بھید کھلا کہ یہ تو سوکنا پے کا چکر تھا جس میں آنحضرت ﷺ کو مبتلا کیا گیا اور ایک بدنما صورت حال پیدا ہوئی۔ اسی موقعہ پر حضرت عمر نے ان ازواج مطہرات کو تنبیہ وتہدید کرتے ہوئے مذکورہ الفاظ کہے اور پھر جب قرآن میں اس واقعہ سے متعلق فرمان الہٰی نازل ہوا تو اس میں حضرت عمر کے الفاظ اور مفہوم کو جوں کا توں شامل کیا گیا۔ سورة تحریم میں ہے۔ (عَسٰى رَبُّه اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَه اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ ) 66۔ التحریم 5) اگر آنحضرت ﷺ تم عورتوں کو طلاق دے دیں تو ان کا پروردگار بہت جلد تمہارے بدلے ان کو تم سے اچھی بیبیاں دیدے گا۔ بدر کے قیدیوں کے بارے میں یعنی غزوہ بدر میں فتح یابی کے بعد جنگی قیدیوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے صحابہ سے مشورہ فرمایا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہو اور ان کا معاملہ کس طرح نمٹایا جائے تو حضرت ابوبکر نے رائے دی کہ فدیہ لے کر ان کو رہا کردیا جائے۔ لیکن حضرت عمر کی رائے یہ تھی کہ ان دشمنان اسلام کو قتل کردیا جائے۔ آنحضرت ﷺ نے حضرت ابوبکر کی رائے کو پسند فرمایا اور ان قیدیوں کو ان کی حیثیت واستطاعت کے مطابق فدیئے لے کر رہا کردیا۔ لیکن جب قرآن کریم میں اس کے متعلق آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر کی رائے کے مطابق نکلی۔ اس کی تفصیل اگلی حدیث میں آرہی ہے۔
Top