مشکوٰۃ المصابیح - حضرت عثمان کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6018
عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه و سلم مضطجعا في بيته كاشفا عن فخذيه - أو ساقيه - فاستأذن أبو بكر فأذن له وهو على تلك الحال فتحدث ثم استأذن عمر فأذن له وهو كذلك فتحدث ثم استأذن عثمان فجلس رسول الله صلى الله عليه و سلم وسوى ثيابه فلما خرج قالت عائشة : دخل أبو بكر فلم تهتش له ولم تباله ثم دخل عمر فلم تهتش له ولم تباله ثم دخل عثمان فجلست وسويت ثيابك فقال : ألا أستحي من رجل تستحي منه الملائكة ؟ وفي رواية قال : إن عثمان رجل حيي وإني خشيت إن أذنت له على تلك الحالة أن لا يبلغ إلي في حاجته . رواه مسلم
حضرت عثمان کے مناقب کا بیان
ام المؤمنین حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں (ایک دن) رسول کریم ﷺ اپنے گھر میں اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے لیٹے تھے کہ حضرت ابوبکر نے حاضری کی اجازت چاہی، آپ ﷺ نے انہیں اندر بلالیا اور اسی حالت میں لیٹے رہے، حضرت ابوبکر (کچھ دیر تک بیٹھے) آپ ﷺ سے باتیں کرتے رہے پھر حضرت عمر نے حاضری کی اجازت چاہی، آپ ﷺ نے انہیں اندر بلالیا اور اسی طرح لیٹے رہے حضرت عمر (بھی کچھ دیر تک بیٹھے) آپ ﷺ سے باتیں کرتے رہے اور پھر جب حضرت عثمان نے حاضری کی اجازت چاہی ( اور اجازت ملنے پر اندر داخل ہوئے) تو رسول کریم ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور کپڑوں کو درست کرلیا (یعنی رانیں یا پنڈلیاں ڈھک لیں) جب حضرت عثمان ( اور خدمت اقدس میں حاضر دوسرے لوگ) چلے گئے تو عائشہ نے عرض کیا کہ حضرت ابوبکر اندر تو آپ نے نہ جنبش کی اور نہ ان کی پرواہ کی، (بلکہ اسی طرح لیٹے رہے اور اپنے کپڑے بھی درست نہیں کئے نہیں) اسی طرح حضرت عمر اندر آئے تو آپ ﷺ نے اس وقت بھی نہ حرکت کی اور نہ ان کی پرواہ کی، مگر جب حضرت عثمان اندر داخل ہوئے تو آپ فورًا اٹھ کر بیٹھ گئے اور اپنے کپڑے درست کرلئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کیا میں اس شخص سے حیاء نہ کروں جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ آپ نے فرمایا حقیقت یہ ہے کہ عثمان بہت حیادار آدمی ہیں میں نے محسوس کیا کہ اگر میں نے عثمان کو اسی حالت میں بلالیا (کہ میری رانیں یا پنڈلی کھلی ہوئی ہوں) تو وہ مجھ سے اپنا مقصد پورا نہیں کریں گے یعنی اگر وہ مجھ کو اس حالت میں دیکھیں کے تو غلبہ ادب اور شرم وحیا سے میرے پاس نہیں بیٹھیں گے اور جس مقصد سے یہاں آئے ہیں اس کو پورا کئے بغیر واپس چلے جائیں گے۔ (مسلم )

تشریح
اپنی رانیں یا پنڈلیاں کھولے ہوئے تھے حدیث کی شرح میں اس عبارت کے تحت امام نووی نے لکھا ہے کہ مالکی اور دوسرے حضرات نے اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ ران جسم کا وہ حصہ ہے جس کو ستر میں شمار کیا جائے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے کیونکہ اول تو یہی بات یقینی نہیں ہے کہ اس وقت آنحضرت ﷺ اپنی رانیں کھولے ہوئے لیٹے تھے اگر یہ یقینی ہوتا تو حدیث کے راوی کو اپنی رانیں یا پنڈلیاں کے الفاظ سے یہ شک وتردد ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ کہ اس وقت آنحضرت ﷺ اپنے جسم مبارک کا جو حصہ کھولے ہوئے لیٹے تھے وہ رانیں تھیں یا پنڈلیاں؟ جب الفاظ حدیث سے رانوں کا کھولنا یقینی طور پر ثابت نہیں تو پھر رانوں کا ستر نہ ہونا یعنی رانیں کھولنے کا جواز اس حدیث سے ثابت کرنا غیرموزوں بات ہے دوسرے اس بات کا قریبی امکان ہے کہ رانیں کھولنے سے مراد رانوں پر سے کرتے کا دامن ہٹا ہونا ہو یعنی ان الفاظ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ﷺ کی رانیں بالکل کھلی ہوئی تھیں کہ ان پر نہ تہبند تھا اور نہ کرتے کا دامن بلکہ یہ مطلب ہے کہ آپ ﷺ نے تہبند تو باندھ رکھا تھا جس میں رانیں چھپی ہوئی تھیں مگر رانوں کے اوپر سے کرتے کا دامن ہٹا ہوا تھا، اس کی تائید نہ صرف یہ کہ آگے کی عبارت سے سمجھ میں آتی ہے بلکہ آنحضرت ﷺ کی عادت، مزاج اور اس معمول کے پیش بھی یہی بات زیادہ موزوں معلوم ہوتی ہے جو آل واصحاب کے ساتھ مخالطت ومجالست کے مواقع پر آپ ﷺ کا تھا۔ اور کپڑوں کو درست کرلیا ان الفاظ میں اس طرف واضح اشارہ ہے کہ آپ ﷺ رانوں یا پنڈلیوں میں سے کوئی بھی عضو پوری طرح کھولے ہوئے نہیں لیٹے تھے بلکہ تہبند کے علاوہ اور کوئی کپڑا رانوں یا پنڈلیوں پر نہیں تھا اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رانیں پوری طرح کھلی ہوئی ہوتیں تو یہاں وسوی ثیابہ (اور کپڑوں کو درست کرلیا) کے بجائے یہ الفاظ ہوتے کہ وستر فخذیہ (اور اپنی رانوں کو ڈھک لیا )۔ جس سے فرشتے حیاء کرتے ہیں امام نووی نے لکھا ہے کہ یہ ارشاد گرامی حضرت عثمان کی فضیلت کو ظاہر کرتا ہے کیونکہ حیاء فرشتوں کی ایک اعلی صفت ہے جو مذکورہ الفاظ کے ذریعہ حضرت عثمان میں ثابت کی گئی ہے اور مظہر نے لکھا ہے یہ الفاظ حضرت عثمان کی اس عزت و توقیر کو ظاہر کرتے ہیں، جو آنحضرت ﷺ کے نزدیک تھی لیکن اس سے نہ تو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے اس مقام و مرتبہ پر کوئی فرق پڑتا ہے جو بارگاہ رسالت ﷺ میں ان کو حاصل تھا اور نہ یہ لازم آتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کی بہ نسبت حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو کچھ زیادہ اہمیت نہیں دی، دراصل حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کو تعلق، محبت اور قربت کا جو خصوصی مقام بارگارہ رسالت میں حاصل تھا وہ اسی بےتکلفی کا متقاضی تھا، جس کا اظہاران دونوں کی آمد پر آنحضرت ﷺ نے کیا کہ جس طرح لیٹے تھے اسی طرح لیٹے رہ گئے۔ سب جانتے ہیں، جیسا کہ کہا گیا ہے اذا حصلت الالفۃ بطلت الکفۃ اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو یہ حدیث فضیلت عثمان کے موضوع سے زیادہ فضیلت ابوبکر وعمر کے موضوع سے تعلق رکھتی نظر آتی ہے مگر حدیث کا ظاہری مفہوم اور اس کا سیاق وسباق چونکہ حضرت عثمان کی تعظیم و توقیر پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس حدیث کو حضرت عثمان کے مناقب کے باب میں ذکر کرنا ہی زیادہ موزوں ہے یہ حقیقت بھی ذہن میں رہنے چاہئے کہ آنحضرت ﷺ کے رفقاء و صحابہ میں سے جو شخص جس صفت کا زیادہ حامل ہوتا تھا اور جس کی طبیعت ومزاج پر جس خصلت و خوبی کا غلبہ ہوتا تھا آپ اسی صفت وخصلت کی رعایت سے اس کے ساتھ سلوک فرماتے تھے، چناچہ حضرت عثمان پر چونکہ صفت حیاء کا غلبہ تھا اس لئے آپ ہمیشہ ان کا حجاب ولحاظ کرتے تھے جب کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر چونکہ آپ سے بہت بےتکلف تھے اس لئے ان کے ساتھ بےتکلفی کا معاملہ رکھتے تھے۔ فرشتوں نے حضرت عثمان سے جن مواقع پر حیاء کی ہے ان میں سے ایک یہ نقل کیا گیا ہے کہ مدینہ میں ایک قضیہ کے دوران حضرت عثمان جو آگے بڑھے تو ان کا سینہ کھل گیا اور فرشتے فورا پیچھے ہٹ گئے۔ اسی وقت آنحضرت ﷺ نے حضرت عثمان کو متوجہ کیا کہ اپنا سینہ ڈھک لیں۔ اس کے بعد فرشتے اپنی جگہ واپس آگئے۔ آنحضرت ﷺ نے ان فرشتوں سے ان کے پیچھے ہٹنے کا سبب دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ عثمان کی حیاء سے ہم پیچھے ہٹ گئے تھے اور جب انہوں نے آپ ﷺ کے توجہ دلانے پر اپنا سینہ ڈھک لیا تو ہم اپنی جگہ پر واپس آگئے۔
Top