مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6151
وعن عمر رضي الله عنه أنه فرض لأسامة في ثلاثة آلاف وخمسمائة وفرض لعبد الله بن عمر في ثلاثة آلاف . فقال عبد الله بن عمر لأبيه : لم فضلت أسامة علي ؟ فو الله ما سبقني إلى مشهد . قال : لأن زيدا كان أحب إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم من أبيك وكان أسامة أحب إلى رسول الله صلى الله عليه و سلم منك فآثرت حب رسول الله صلى الله عليه و سلم على حبي . رواه الترمذي
حضرت اسامہ کی فضیلت
اور حضرت عمر فاروق ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے (اپنے زمانہ خلافت میں) اسامہ بن زید ؓ کی سالانہ تنخواہ تین ہزار پانچ سو درہم مقرر کی اور اپنے فرزند عبداللہ کی تین ہزار درہم۔ اس پر عبداللہ نے اپنے باپ سے عرض کیا کہ آپ نے اسامہ ؓ کو مجھ پر کیوں ترجیح دی (کہ میری تنخواہ ان سے پانچ سو درہم کم رکھی) حالانکہ واللہ اسامہ ؓ نے کسی مشہد میں مجھ پر سبقت و بازی حاصل نہیں کی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ اسامہ ؓ کا باپ (زید) رسول کریم ﷺ کو تمہارے باپ (یعنی مجھ سے) زیادہ عزیز و محبوب تھے لہذا میں نے رسول کریم ﷺ کے محبوب (اسامہ) کو اپنے محبوب (یعنی تم) ترجیح دی۔ (ترمذی)

تشریح
مشہد کے معنی ہیں حاضر ہونے کی جگہ جہاں کسی اچھے کام یا اچھی بات میں حصہ لیا جائے لیکن یہاں یہ لفظ شہید ہونے کی جگہ یعنی میدان جنگ اور معرکہ جنگ کے معنے میں استعمال ہوا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کا شکوہ اس احساس کی بناء پر تھا کہ جب اسامہ ؓ کی تنخواہ میری تنخواہ سے زیادہ مقرر کی گئی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسامہ ؓ کو مجھ پر فضیلت و برتری حاصل ہے، حالانکہ علمی، دینی اور خدماتی لحاظ سے اسامہ ؓ کا مرتبہ میرے مرتبہ سے یقینا کم ہے، اس پر حضرت عمر ؓ نے ان کو سمجھایا کہ اسامہ کی تنخواہ اس لئے زیادہ ہے کہ وہ باعتبار علم و عمل اور خدمات کے تم سے افضل ہیں بلکہ اس محبت خاص کی رعایت سے ہے جو ان سے رسول کریم ﷺ کو تھی اور کسی کا دوسروں کے مقابلہ پر زیادہ محبوب ہونا اس بات کو مستلزم نہیں ہوتا کہ وہ ان دوسروں سے افضل بھی ہو، رہی یہ بات کہ حضرت اسامہ ؓ اور ان کے والد حضرت زید ؓ آنحضرت ﷺ کو زیادہ عزیز و محبوب تھے تو اس کی ایک ظاہر سی وجہ تو یہی ہے کہ وہ دونوں اس اعتبار سے آنحضرت ﷺ کے اہل بیت میں سے تھے کہ آپ ﷺ کے آ زاد کردہ غلام تھے اور کسی شخص کا آزاد کردہ غلام اس کے افراد خانہ میں شمار ہوتا ہے۔
Top