مشکوٰۃ المصابیح - نبی کریم ﷺ کے گھر والوں کے مناقب کا بیان - حدیث نمبر 6152
وعن جبلة بن حارثة قال : قدمت على رسول الله صلى الله عليه و سلم فقلت : يا رسول الله ابعث معي أخي زيدا . قال : هو ذا فإن انطلق معك لم أمنعه قال زيد : يا رسول الله والله لا أختار عليك أحدا . قال : فرأيت رأي أخي أفضل من رأيي . رواه الترمذي
حضرت زید کا آنحضرت ﷺ کو چھوڑ کر اپنے گھر جانے سے انکار
اور حضرت جبلہ بن حارثہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میرے بھائی زید کو میرے ساتھ بھیج دیجئے آنحضرت ﷺ نے فرمایا یہ زید موجود ہے (اور اپنی مرضی کا مختار ہے) اگر یہ تمہارے ساتھ جانا چاہے تو میں اس کو منع نہیں کرتا، زید نے یہ سن کر) کہا یا رسول اللہ ﷺ! اللہ کی قسم میں آپ ﷺ (کی صحبت و خدمت میں رہنے کی سعادت) پر کسی کو بھی ترجیح نہیں دیتا (خواہ وہ بھائی یا والدین ہی کیوں نہ ہوں) جبلہ کہتے ہیں کہ میں نے (زید کا یہ فیصلہ سنا تو) مان لیا کہ میرے بھائی کی عقل میری عقل سے بڑھی ہوئی ہے۔ (ترمذی)

تشریح
میں اس کو منع نہیں کرتا یعنی جب میں اس کو آزاد کرچکا ہوں تو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق اس کو مل گیا ہے اب نہ تو میں اس کو جانے سے روک سکتا ہوں اور نہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ چلے جاؤ وہ جانا چاہے تو چلا جائے اور نہ جانا چاہے تو شوق سے میرے پاس رہے۔ میری عقل سے بڑھی ہوئی ہے جبلہ کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ پہلے تو میری رائے یہ تھی کہ زید کو میرے اپنے گھر واپس چلنا چاہئے مگر زید کا فیصلہ سننے کے بعد ان کی رائے کی اصابت اور برتری کا میں قائل ہوگیا۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ کی صحبت و خدمت میں رہنے والا کوئی بھی صاحب ایمان اس دنیاوی و آخروی سعادت و عظمت اور خیر و بھلائی کو چھوڑنے پر آمادہ ہو ہی نہیں سکتا آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حضرت زید ؓ کے بھائی کے آمد اور ان کو اپنے ساتھ وطن لے جانے کی درخواست پیش کرنے کا یہ واقعہ اس وقت کا ہے جب حضرت زید غلام نہیں رہ گئے تھے بلکہ آنحضرت ﷺ ان کو خلعت آزادی سے سرفراز فرما چکے تھے اور اپنی مرضی کے پوری طرح مختار تھے، لیکن ظاہر ہے کہ خدمت بابرکت اور صحبت پر سعادت کی لذت ان کو کہاں جانے دیتی تھی۔ حضرت زید بن حارثہ ؓ کے بارے میں پہلے بھی بتایا جا چکا ہے وہ یمن کے باشندہ تھے بچپن میں جب کہ ان کی عمر آٹھ سال کی تھی کچھ قریش مکہ ان کو پکڑ کر لائے تھے اور بطور غلام بازار میں فروخت کر ڈالا تھا، حضرت خدیجہ ؓ کے بھتیجے حکیم بن حزام نے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ ؓ کے لئے ان کو خرید لیا تھا۔ جب حضرت خدیجہ ؓ آنحضرت ﷺ کے نکاح میں آئیں تو انہوں نے زید ؓ کو بطور ہدیہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ اور اپنی آزاد کردہ لونڈی ام یمن سے ان کا نکاح کردیا، ام یمن کے بطن سے حضرت اسامہ ؓ پیدا ہوئے، بعد ازاں آنحضرت ﷺ نے زید ؓ کا دوسرا نکاح اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب بنت جحش ؓ سے کیا جن کو کچھ دنوں بعد حضرت زید ؓ نے طلاق دے دی بعض حضرات کے قول کے مطابق بیس سال چھوٹے تھے۔ بدر اور دوسرے غزوں میں شریک ہوئے۔ آنحضرت ﷺ نے مدینہ میں ان کا بھائی چارہ حضرت جعفر بن ابی طالب ؓ کے قائم کیا تھا غزوہ موتہ ٨ ھ بعمر ٥٥ سال شہید ہوئے۔
Top