مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6190
وعن جابر أن رسول الله صلى الله عليه و سلم قال : أريت الجنة فرأيت امرأة أبي طلحة وسمعت خشخشة أمامي فإذا بلال . رواه مسلم
حضرت انس کی والدہ ام سلیم اور حضرت بلال کی فضیلت
اور حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا مجھ کو جنت دکھائی گئی تو میں نے اس میں ابوطلحہ ؓ کی بیوی کو دیکھا، پھر میں نے اپنے آگے قدموں کی چاپ سنی تو کیا تو دیکھتا ہوں کہ بلال ہیں (جو آگے آگے جنت میں چلے جا رہے ہیں )۔ (مسلم)

تشریح
ابو طلحہ ؓ کی بیوی سے مراد حضرت ام سلیم ہیں جو حضرت انس ؓ کی والدہ ماجدہ ہیں۔ ان کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ ان کا پہلا نکاح مالک بن نضر سے ہوا تھا اور اسی سے حضرت انس ؓ پیدا ہوئے، مالک بن نضر مشرک تھا اور شرک ہی کی حالت میں مارا گیا، اس کے بعد ام سلیم مسلمان ہوگئیں اور ابوطلحہ ؓ نے ان سے نکاح کا پیغام دیا اس وقت تک ابوطلحہ نے اسلام قبول نہیں کیا تھا چناچہ حضرت ام سلیم نے ان کا پیغام رد کردیا اور ان کو اسلام کی دعوت دی ابوطلحہ نے اسلام قبول کیا تو حضرت ام سلیم ؓ نے ان سے نکاح کرلیا اور کہا کہ میں خود کو تمہارے اسلام کے عوض تمہاری زوجیت میں دیتی ہوں، تمہارا یہ اسلام قبول کرنا ہی میرا مہر ہے ؓ حضرت بلال ؓ ابورباح کے بیٹے تھے اور حضرت ابوبکر صدیق کے آزاد کردہ غلام ہیں، نہایت قدیم الاسلام ہیں مکہ میں اپنے اسلام کا سب سے پہلے اعلان و اظہار کرنے والے یہی ہیں، آنحضرت ﷺ کے مؤذن خاص تھے انہوں نے غزوہ بدر اور اس کے بعد جہادوں میں شرکت کی، آخر میں شام چلے گئے اور وہیں کے سکونت پزیر ہوگئے تھے۔ ٢٠ ھ میں بمقام دمشق فوت ہوئے اور باب الصغیر میں دفن کئے گئے اس وقت ان کی عمر ٦٣ سال تھی انہوں نے اپنا کوئی وارث نہیں چھوڑا، صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت کو ان سے روایت حدیث کا شرف حاصل ہے، حضرت بلال ؓ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جو قبول اسلام کی پاداش میں کفار مکہ کے سخت ظلم وستم کا نشانہ بنے تھے۔ امیہ بن خلف ان کو نہایت سخت اذیتیں پہنچایا کرتا تھا اور تقدیر الہٰی سے ایسا ہوا کہ غزوہ بدر میں وہ موذی حضرت بلال ہی کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا، ایک روایت میں حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ؓ فرمایا کرتے تھے۔ ابوبکر سیدنا واعتق سیدنا یعنی ابوبکر ہمارے آقا ہیں اور انہوں نے ہمارے آقا (بلال) کو آزاد کیا۔ امام احمد (رح) نے اپنی مسند میں نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے جن لوگوں نے اسلام کا انکشاف و اظہار کیا وہ سات ہیں، رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر صدیق ؓ، حضرت عمار ؓ، کی والدہ حضرت سمیہ ؓ، حضرت صہیب ؓ، حضرت بلال ؓ اور حضرت مقداد ؓ، پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو تو دشمنان دین کی اذیتوں سے آپ ﷺ کے چچا ابوطالب کے ذریعہ محفوظ رکھا اور حضرت ابوبکر ؓ کو ان کے قبیلہ و خاندان کے سبب تحفظ حاصل رہا، باقی پانچوں کو مشرکوں نے کمزور و لاچار جان کر اپنا ہدف بنا لیا۔ وہ ظالم ان کو وحشیانہ سزائیں دیتے تھے، یہاں تک کہ ان کو لوہے کی زرہیں پہناکر تپتی ہوئی دھوپ میں ڈال دیا کرتے تھے۔ پھر ان پانچوں میں سے سوائے بلال ؓ کے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ نے مشرکوں کے پنجے سے نجات دلائی اور ان کو ذی عزت بنادیا۔ مگر بلال ؓ کمزور و لاچار ہی رہے، اللہ کی راہ میں مصائب وشدائد سے بچانے والی کوئی خاندانی وقبائلی طاقت ان کو حاصل نہیں ہوئی۔ مشرکین مکہ کی ظالمانہ گرفت ان پر سخت سے سخت ہوگئی، انہوں نے ان کو مکہ کے اوباش لونڈوں کے سپرد کردیا، وہ لونڈے ان کو (رسیوں میں جکڑ کر) مکہ کے گلی کوچوں میں گھسٹیتے پھرتے تھے اور ان کی زبان پر احد احد (اللہ ایک ہے) کا نعرہ ہوتا تھا۔
Top