مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6204
وعن أنس عن النبي صلى الله عليه و سلم قال : آية الإيمان حب الأنصار وآية النفاق بغض الأنصار . متفق عليه
انصار کی فضیلت
اور حضرت انس ؓ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا (یعنی کمال ایمان) کی نشانی (تمام) انصار سے محبت رکھنا۔ اور نفاق کی نشانی انصار سے بغض و دشمنی رکھنا ہے۔ (بخاری ومسلم)

تشریح
انصار کا لفظ لغوی طور پر ناصر یا نصر کی جمع ہے اور اصطلاحا اس لفظ کا اطلاق مدینہ کے ان لوگوں پر ہوتا ہے جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے اور جان ومال سے آپ ﷺ کی مدد کی دراصل مدینہ میں دو قبیلے آباد تھے۔ ایک کے مورث اعلی کا نام اوس اور دوسرے کامورث اعلی کا نام خزرج تھا اوس و خزرج دونوں بھائی تھے اور آگے چل کر ان دونوں کی نسلوں نے دو زبر دست قبیلوں کی صورت اختیار کرلی۔ مدینہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کی آمد سے پہلے یہ دونوں قبیلے ایک دوسرے کے خلاف بھیانک مخاصمت و دشمنی رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ہجرت نبوی کے وقت تک مسلسل ایک سو بیس سال سے ان دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ و عداوت چلی آرہی تھی، لیکن جوں ہی انہوں نے اسلام و توحید اور پیغمبر اسلام ﷺ سے تعلق قائم کیا ان کی باہمی عداوت ومخاصمت، باہمی محبت وموانست میں بدل گئی۔ آنحضرت ﷺ نے ان دونوں قبیلوں کو انصار کا لقب عطا فرمایا اور اسی لقب کے ذریعہ ان قبیلوں کے لوگ ممتاز ہوئے۔ ان کے بعد ان کی اولاد، ان کی نسلوں اور ان کے آزاد کردہ غلاموں کے لئے بھی یہ لقب باقی رہا۔ انصار کے فضائل ومناقب کا کوئی ٹھکانہ نہیں، اسلام میں بلند تر، شرف و اعزاز ان کو حاصل ہے قرآن کریم میں ان کی تعریف مذکور ہے اور یہ عظیم تر رتبہ ان کو اس بناء پر حاصل ہوا کہ انہوں نے نہایت مخلصانہ طور پر پیغمبر اسلام کو ٹھکانا دیا۔ جان ومال سے آپ ﷺ کی مدد کی اور آپ ﷺ کے دعوتی مشن کے نہایت زبردست اور موثر و معاون بنے۔ اور چونکہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کی معاونت کر کے تمام عرب وعجم کے دشمنان دین کی عداوت مول لی۔ اس لئے ضروری ہوا کہ ان کی محبت کو ایمان کی علامت اور ان کی عداوت کو کفر ونفاق کی علامت، اسی طرح ان کے تئیں کمال محبت کو کمال ایمان کا موجب اور ان کے تئیں نقصان محبت کو نقصان ایمان کا موجب قرار دیا جائے بلکہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر کوئی شخص اس بناء پر ان سے عدوات رکھے کہ وہ اسلام اور پیغمبر اسلام کے معاون و مددگار بنے تو وہ شخص یقینی طور پر حقیقی کافر ہے۔
Top