مشکوٰۃ المصابیح - مناقب کا جامع بیان - حدیث نمبر 6249
وعن قيس بن أبي حازم أن بلالا قال لأبي بكر : إن كنت إنما اشتريتني لنفسك فأمسكني وإن كنت إنما اشتريتني لله فدعني وعمل الله . رواه البخاري
حضرت بلال
اور حضرت قیس بن ابی حازم (تابعی) سے روایت ہے کہ حضرت بلال ؓ نے حضرت ابوبکر صدیق ؓ سے کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنی ذاتی خوشی کے لئے مجھ کو خریدا تھا تو مجھ کو اپنے پاس رکھ لیجئے ( اور جس خدمت پر چاہیں مامور کردیجئے) لیکن اگر آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے خریدا تھا تو پھر مجھ کو اللہ کے کام کے لئے آزاد چھوڑ دیجئے۔ (بخاری)

تشریح
حضرت ابوبکر ؓ سے حضرت بلال ؓ کی اس گفتگو کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت بلال ؓ پہلے ایک غلام تھے اور دشمنان دین کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ایک بڑی رقم خرچ کر کے ان کو خریدا اور آزاد کردیا، اس کے بعد وہ نبی کریم ﷺ کے خصوصی خادموں میں شامل ہوئے اور آنحضرت ﷺ نے ان کو اذان دینے کی خدمت پر مامور کردیا اور وصال نبی تک حضرت بلال ؓ یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ جب آنحضرت ﷺ کا وصال ہوا تو عشق نبوی سے سرشار حضرت بلال ؓ کے لئے مدینہ کا قیام ایک بڑی آزمائش بن گیا۔ اس تصور ہی سے ان کا پیمانہ صبر چھلک جاتا تھا کہ آنحضرت ﷺ موجود نہ ہوں اور وہ مسجد نبوی کی طرف دیکھیں اور اس میں جا کر اذان دیں، چناچہ انہوں نے ملک شام چلے جانا کا ارادہ کرلیا، حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے حضرت بلال ؓ کو روکنا چاہا اور ان سے درخواست کی کہ آپ یہیں میرے پاس رہیں اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ کی طرف مسجد نبوی میں اذان دیتے رہے، اس وقت حضرت بلال ؓ نے یہ بات کہی کہ اگر آپ نے مجھ کو اس لئے خریدا تھا کہ میں آپ کی خوشی اور آپ کی خواہش کی تکمیل کرتا رہوں تو میں آپ کی بات ماننے پر مجبور ہوں جو بھی خدمت آپ میرے سپرد کریں گے اس کو انجام دینا اپنا فرض سمجھوں گا لیکن اگر آپ نے مجھ کو اس مقصد کے نہیں خریدا تھا بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کی خاطر خریدا اور آزاد کیا تو پھر میں چاہوں گا کہ آپ مجھ کو اپنا پابند نہ بنائیں، مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے کہ میں جہاں چاہوں چلا جاؤں اور مخلوق سے کوئی سروکار نہ رکھتے ہوئے اپنے خالق کے کاموں میں ہمہ تن اور ہمہ مصروف رہوں۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ حضرت بلال نے یہ بھی کہا تھا کہ مجھ کو گوارا نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے بغیر اس طرف نظر اٹھاؤں جہاں آنحضرت ﷺ رہا کرتے تھے آپ ﷺ کے بغیر اب یہاں رہنا میرے لئے ناممکن ہے۔ چہ مشکل ترا زین بر عاشق زار کے بےدلدار بیند جائے دلدار اس کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے حضرت بلال ؓ کو مدینہ میں روکنے کی کوشش نہیں کی اور وہ اس لشکر میں شامل ہو کر سوئے دمشق روانہ ہوگئے جو شام جارہا تھا، پھر آخر عمر تک وہیں قیام پذیر رہے یہاں تک کہ ١٨ ھ یا ایک روایت کے مطابق ٢٠ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ روایت کے بالکل بےبنیاد ہے جس میں حضرت بلال ؓ کے شام جانے اور پھر وہاں خواب میں آنحضرت ﷺ کو دیکھ کر مدینہ لوٹ آنے اور مسجد نبوی میں اذان دینے اور اتنے دنوں بعد ان کی آذان سن کر مدینہ اور اہل مدینہ کے لرز جانے کا ذکر ہے۔
Top