مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6329
وعن معاوية بن قرة عن أبيه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : إذا فسد أهل الشام فلا خير فيكم ولا يزال طائفة من أمتي منصورين لا يضرهم من خذلهم حتى تقوم الساعة قال ابن المديني : هم أصحاب الحديث . رواه الترمذي وقال : هذا حديث حسن صحيح
ار حدیث کی فضیلت
حضرت معاویہ بن قرۃ سے روایت ہے جو اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا جب اہل شام تباہ ہوجائیں تو پھر تم میں بھلائی نہ ہوگی اور میری امت میں ہمیشہ ایک جماعت ایسی رہے گی جس کو ( دشمنان دین کے مقابلہ پر غالب رہنے کے لئے اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوگی، اس جماعت کو وہ شخص کچھ نقصان و ضرر نہ پہنچا سکے گا جو اس کی تائید واعانت ترک کر دے (کیو ن کہ اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کی عنایت بیشمار ہوگی) تاآنکہ قیامت قائم ہو اور علامہ ابن مدینی (رح) ( جو اکابر محدثین میں سے ہیں) کہتے ہیں کہ اس جماعت سے مراد ارباب حدیث ہیں اس روایت کو ترمذی نے نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تشریح
حضرت معاویہ بن قرہ کے والد کا نام قرہ بن ایاس ہے جو صحابی ہیں۔ خود حضرت معاویہ بن قرہ (رح) ایک تابعی ہیں، ان کا شمار اہل علم و عمل میں ہوتا ہے۔ بلند پایہ فقیہہ کی حیثیت سے بھی مشہور ہیں جنگ جمل کے دن ان کی ولادت ہوئی تھی اور ١١٣ ھ میں واصل بحق ہوئے۔ تو پھر تم میں بھلائی نہ ہوگی۔۔۔ یعنی جب اہل شام میں بھی فساد و تباہی پھیل جائے گی تو اس وقت شام میں سکونت اختیار کرنا یا اپنے وطن سے ہجرت کر کے ملک شام میں جانے میں کوئی بھلائی نہیں رہے گی۔ اور حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی (رح) نے یوں وضاحت کی ہے کہ ان الفاظ کی بظاہر مراد یہ ہے کہ آخر زمانہ میں اہل شام اللہ کے سچے دین پر قائم ہو نگے اور خیر امت ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دیں گے اور پھر آخر کار ان میں بھی تباہی آجائے گی اور یہ اس وقت ہوگا جب قیامت آئے گی تو اس دنیا میں صرف بدکار لوگ موجود ہوں گے چناچہ اہل شام کے تباہ ہونے کے ساتھ ہی اس روئے زمین سے خیر کا وجود اٹھ جائے گا جو اس بات کا نتیجہ ہوگا کہ اس وقت اہل خیر میں سے کوئی بھی اس دنیا میں باقی نہیں ہوگا۔ تا آ ن کہ قیامت قائم ہو۔۔۔ میں قیامت قائم ہونے سے مراد قائم ہونے کا وقت بالکل قریب آجانا ہے کیونکہ یہ تو اوپر ہی بتایا جا چکا ہے کہ جب قیامت قائم ہوگی تو اس وقت روئے زمین پر کوئی کلمہ گو باقی نہیں ہوگا۔ اس جماعت سے مراد ارباب حدیث ہیں۔۔۔ یعنی وہ محدثین اور اہل علم کہ جو حدیث کے حفاظ ہیں، حد یثوں کے راوی ہیں، سنت نبوی ﷺ پر جو کہ کتاب اللہ کی ترجمان اور شارح ہے عمل کرنے اور جو درس و تدریس، تصنیف وتا لیف، تعلیم و تبلیغ کے ذریعہ احادیث نبوی ﷺ اور علوم نبوی ﷺ کی خدمت اور اس کے سیکھنے سکھانے میں لگے ہوئے ہیں اور گویا وہ گروہ جن کو اہل سنت والجماعت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
Top