مشکوٰۃ المصابیح - یمن اور شام اور اویس قرنی کے ذکر کا باب - حدیث نمبر 6331
وعن بهز بن حكيم عن أبيه عن جده أنه سمع رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول في قوله تعالى : [ كنتم خير أمة أخرجت للناس ] قال : أنتم تتمون سبعين أمة أنتم خيرها وأكرمها على الله تعالى رواه الترمذي وابن ماجه والدارمي وقال الترمذي : هذا حديث حسن
اس امت کی انتہائی فضیلت
اور حضرت بہز بن حکیم بن معاویہ بن حیدہ قشیری بصری اپنے والد (حضرت حکیم بن معاویہ) سے اور وہ بہز کے دادا ( اور اپنے والد حضرت معاویہ ابن حیدہ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کے ارشاد کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کی تفسیر میں یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ( اے اہل اسلام) تم ستر امتیوں کو تمام کرتے ہو اور اللہ کے نز دیک تم ان امتوں میں سب سے بہتر اور گرامی قدر ہو۔ اس روایت کو ترمذی ابن ماجہ اور دارمی نے نقل کیا ہے اور ترمذی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حسن ہے۔

تشریح
کنتم خیر امۃ اخرجت للناس کا ترجمہ ہے امتوں میں سب سے بہتر امت تم تھے جسے لوگوں ( کی ہدایت و بھلائی) کے لئے پیدا کیا گیا۔ پس کنتم ( تم تھے) سے مراد یہ ہے کہ اپنی اس خصوصیت اور وصف کے ساتھ تم روز اول سے اللہ کے علم و ارادہ میں تھے جس کا ظہور اس دنیا میں اب میرے آ نے کے بعد ہوا ہے۔ یا یہ کہ لوح محفوظ میں اس وصف و خصوصیت کے ساتھ تمہارا ذکر روز اول ہی آگیا۔ اور یا یہ کہ گز شتہ امتوں کے درمیان تمہارا ذکر اسی وصف و خصوصیت کے ساتھ یعنی خیر امت کی حیثیت سے ہوتا تھا۔ بہر حال خیر امت میں اس امت سے مراد اس امت کے تمام ہی اہل ایمان مراد ہیں خواہ وہ عام امتیوں میں سے ہو یا خواص میں سے۔ حقیقت یہ ہے کہ حسن اعتقاد، ایمان کی راہ میں ثابت قدم رہنے، آنحضرت ﷺ کے تئیں بہت زیادہ محبت وتعلق رکھنے، ایمان سے نہ پھر نے، اسلام کی غلامی کے دائرہ سے اپنے کو باہر نہ رکھنے اور ان جیسی دوسری خصوصیات و صفت رکھنے کے سبب ہر امتی اس فضیلت میں شامل ہے جو پچھلی تمام امتوں کے مقابلہ میں اس امت مرحومہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی ہے، تاہم بعض حضرات کا یہ کہنا ہے کہ خیر امت کا مصداق مخصوص طور پر اس امت کی وہ جماعت ہے جو خواص سے تعبیر کی جاتی ہے یعنی علماء صادقین شہداء اسلام اور صالحین امت ان حضرات کے نز دیک خیر سے مراد خیر تامہ کا ملہ مخصوصہ ہے اسی طرح بعض حضرات نے اس کا مصداق مہاجرین کی جماعت کو قرار دیا ہے، لیکن یہ حضرات خیرامت کے مفہوم کو ایک محدود دائرہ تک کیوں رکھتے ہیں اور اس کے مصداق کو کسی خاص طبقہ میں منحصر کیوں کرتے ہیں اس کی وجہ ظاہر نہیں ہے۔ لہٰذا حق یہ ہے کہ خیر امت کے مفہوم کو مخصوص کرنے کے بجائے عام رکھا جائے۔ سترا امتوں میں ستر کا عدد تحد ید کے لئے نہیں، بلکہ تکیثر کے لئے ہے، کیونکہ اس عدد کا ذکر اظہار تکثیر کے موقعوں پر زیادہ آتا ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ستر امتوں سے مراد وہ گزشتہ امتیں ہیں جو بڑی بڑی تھیں اور جن کا عدد ستر تک پہنچتا ہے اور انہیں کے ضمن میں تمام چھوٹی چھوٹی امتیں بھی آجاتی ہیں۔ تم ستر امتوں کو تمام کرتے ہو۔۔۔ میں اتمام در اصل ختم کے معنی میں ہے مطلب یہ کہ جس طرح تمہارے پیغمبر ﷺ خاتم النبین اور تمام رسولوں کے سردار ہیں اسی طرح تم بھی تمام امتیوں کے خاتم، تمام امتوں سے زیادہ گرامی قدر اور اتم ہو، پچھلی تمام امتوں پر امت محمدی کی فضیلت و برتری کے اظہار کے لئے بغوی (رح) نے ایک اور روایت اپنی سند کے ساتھ بطریق مر فوع نقل کی ہے جس کے الفاظ ہیں۔ قال ان الجنۃ حرمت علی الانبیاء کلھم حتی ادخلھا و حرمت علی الا مم حتی تد خلھا۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا حقیقت یہ کہ جنت تمام انبیاء پر حرام ہے جب تک کہ میں اس میں نہ پہنچ جاؤں اور جنت تمام امتوں پر حرام ہے جب تک کہ میری امت اس میں داخل نہ ہوجائے۔ اور یہ چیز اس امت کے حسن خاتمہ کی طرف اشارہ کرتی ہے جو اس کے حسن بدأت پر مبنی ہے اس کی طرف اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد انالذین سبقت لھم منا الحسنی بھی اشارہ کرتی ہے پس یہ امت محمدی اس دنیا میں آ نے کے اعتبار سے اگرچہ سب کے بعد ہے لیکن فضل و شرف اور مقام و مرتبہ میں سب سے اعلی ہے والحمد للہ الذی جعلنا من اھل الا سلام وعلی دین نبینا ﷺ والحمدللہ الذی بنعمتہ تتم الصالحات و بشکرہ تزید البرکات والخیرات۔
Top