مشکوٰۃ المصابیح - سود کا بیان - حدیث نمبر 2871
وعن عبد الله بن عمرو بن العاص : أن النبي صلى الله عليه و سلم أمره أن يجهز جيشا فنفدت الإبل فأمره أن يأخذ على قلائص الصدقة فكان يأخذ البعير بالبعيرين إلى إبل الصدقة . رواه أبو داود
غیرمثلی چیز کے قرض لینے کا مسئلہ
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص کے بارے میں مروی ہے کہ ایک غزوۃ کے موقع پر نبی کریم ﷺ نے ان سے فرمایا کہ لشکر کا سامان درست کرلو (یعنی لشکر میں شامل ہونے کے لئے سواری اور ہتھیار وغیرہ تیار رکھو) چناچہ جب اونٹوں کی کمی ہوئی (یعنی جتنے اونٹ تھے وہ اکثر لوگوں میں تقسیم ہوگئے اور کچھ لوگ کہ جن میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بھی شامل تھے اونٹ حاصل نہ کرسکے) تو آنحضرت ﷺ نے عبداللہ کو حکم دیا کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹ کے بدلے میں اونٹ قرض لے لیں چناچہ حضرت عبداللہ زکوٰۃ کے اونٹ آنے تک کے وعدے پر دو اونٹ کے عوض ایک اونٹ لے لیا کرتے تھے ( ابوداؤد)

تشریح
حدیث کا مطلب سمجھنے سے پہلے قرض کے بارے میں ایک بنیادی بات جان لیجئے کہ صرف اسی چیز کا قرض لینا درست ہے جو اپنی مثل رکھنی ہو بایں معنی کہ اسی طرح کی چیز قرض خواہ کو واپس کی جاسکتی ہو جیسے اناج انڈا گوشت اور روپیہ وغیرہ ایسی چیز کو مثلی کہا جاتا ہے اور جو چیز ایسی ہو کہ اسی طرح کی چیز قرض خواہ کو واپس کرنا مشکل ہو تو اس کا قرض درست نہیں ہے جیسے پھل اور جانور وغیرہ ایسی چیز کو غیر مثلی کہتے ہیں۔ اب حدیث کی طرف آئیے حضرت عبداللہ کو آنحضرت ﷺ کے اس حکم کہ وہ زکوٰۃ کے اونٹ کے بدلے میں اونٹ لے لیں کا مطلب یہ تھا کہ وہ کسی شخص سے اس شرط پر بطور قرض اونٹ لے لیں کہ جب زکوٰۃ میں حاصل ہونے والے اونٹ آجائیں گے تو وہ اس کا قرض ادا کردیں گے۔ چناچہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کے نزدیک چونکہ غیر مثلی چیز کا قرض لینا جائز نہیں ہے اور اونٹ بھی غیر مثلی ہے اس لئے اس حدیث کے بارے میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عبداللہ کو یہ حکم اس وقت دیا تھا جبکہ غیر مثلی چیز کا قرض لینا بھی جائز تھا مگر بعد میں غیر مثلی چیز کے قرض لینے کا جواز چونکہ ختم کردیا گیا تھا اس لئے یہ حدیث گویا منسوخ ہے۔ لیکن شیخ عبد الحق نے اس حدیث کے حکم کو بیع پر محمول کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جانور کا جانور کے بدلے میں ادھار لین دین جائز ہے جبکہ ہمارے (یعنی حنفی) علماء نے حضرت سمرۃ بن جندب حدیث جو اس سے پہلے گذری ہے) کے مطابق اس کو ممنوع قرار دیا ہے چناچہ تورپشتی نے کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو کی یہ روایت ضعیف ہے جبکہ حضرت سمرۃ کی روایت اس سے کہیں زیادہ قوی ہے اس لئے حنفیہ نے حضرت سمرۃ کی حدیث پر عمل کیا ہے یا پھر یہ کہ آنحضرت ﷺ نے یہ حکم اس وقت دیا تھا جبکہ وہ ہم جنس چیزوں کا باہمی ادھار لین دین ربا کی قسم میں داخل نہیں تھا لیکن جب لین دین کی یہ صورت ربا قرار پائی تو اس حدیث کا یہ حکم بھی منسوخ قرار پا گیا۔
Top