مشکوٰۃ المصابیح - سود کا بیان - حدیث نمبر 2879
وعن عمر بن الخطاب رضي الله عنه إن آخر ما نزلت آية الربا وإن رسول الله صلى الله عليه و سلم قبض ولم يفسرها لنا فدعوا الربا والريبة . رواه ابن ماجه والدارمي
ربا کی تشریح کے متعلق حضرت عمر کا ارشاد
حضرت عمر فاروق ؓ کا یہ ارشاد منقول ہے کہ جو چیز نازل ہوئی یعنی قرآن کریم اس کا معاملات سے متعلق جو حصہ سب سے آخر میں نازل ہوا ہے وہ ربا کی آیت ہے چناچہ آپ ﷺ اس دنیا سے اس حالت میں تشریف لے گئے کہ آپ ﷺ نے اس کی تفصیل بیان نہیں فرمائی لہذا سود کو بھی چھوڑ دو اور جس چیز میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو ( ابن ماجہ دارمی)

تشریح
یہ بات ابتداء میں بتائی جا چکی ہے کہ سود کی مروجہ شکل یعنی قرض وادھار پر متعین نفع لینا اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں بھی رائج تھی اور لوگوں میں اس طرح کے سود کا بہت زیادہ رواج تھا چناچہ قرآن کریم نے جب ربا کی حرمت بیان کی اور آیت ربا نازل ہوئی تو آنحضرت ﷺ نے حرمت کے اس حکم کو نہ صرف اس وقت کے رائج و متعارف سود پر نافذ کیا بلکہ ربا کے مفہوم کو وسعت دیکر اشیاء کے باہمی لین دین اور خریدو فروخت کی بعض صورتوں کو بھی ربا کے حکم میں داخل فرمایا جس کی تفصیل گذشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے لیکن صورت یہ ہوئی کہ آیت ربا نازل ہونے کے بعد آنحضرت ﷺ اس دنیا میں بہت کم عرصہ تشریف فرما رہے اس تھوڑی مدت میں دیگر دینی وضروی مصروفیات میں اتنا انہماک رہا کہ آپ ﷺ نے لین دین کی ان صورتوں کو زیادہ تفصیل سے بیان نہیں فرمایا یہاں تک آپ واصل بحق ہوگئے چناچہ حضرت فاروق اعظم کے اس ارشاد میں تفصیل سے مراد انہیں صورتوں کی تشریح و تفصیل ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جن چھ چیزوں (سونا چاندی گیہوں جو کھجور نمک) کے باہمی لین دین کی بعض صورتوں کو ربا کے حکم میں داخل فرمایا تھا آیا یہ حکم ان چھ چیزوں کے ساتھ مخصوص ہے یا یہ چیزیں بطور مثال کے بیان فرمائیں اور بقیہ چیزوں کو قیاس و اجتہاد پر موقوف رکھا؟ یہی وجہ ہے کہ بعد میں آنیوالے ائمہ مجتہدین امام ابوحنیفہ امام شافعی امام مالک امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ نے اپنے اپنے اجتہاد سے ان چیزوں کا ایک ضابطہ بنایا اور دوسری چیزوں کو بھی اس ضابطہ کے ماتحت اس حکم میں داخل قرار دیا اس کی تفصیل بھی گذشتہ صفحات میں ذکر کی جا چکی ہے۔ حاصل یہ کہ نزول قرآن سے سود کا ایک مخصوص معاملہ یعنی قرض دے کر اس پر نفع لینا عربی زبان میں لفظ ربا کے ساتھ متعارف چلا آرہا تھا اور پورے عرب میں اس کا رواج تھا چناچہ اہل عرب صرف اسی خاص معاملہ کو ربا کہتے اور سمجھتے تھے اسی ربا کو قرآن کریم نے حرام فرمایا لہذا ربا کی اس صورت میں نہ کوئی ابہام تھا نہ اجمال اور اسی لئے جب قرآن کریم نے ربا کی حرمت کا ذکر کیا تو نہ کسی کو اس کے سمجھنے میں دقت ہوئی اور نہ کسی کو اس پر عمل کرنے میں ایک منٹ کا بھی تامل وتردد ہوا البتہ جب رسول کریم ﷺ نے باشارات وحی الٰہی ربا کے مفہوم میں اور چند معاملات کا اضافہ فرمایا تو چونکہ وہ معاملات اہل عرب کے متعارف مفہوم سے الگ اور ان کے مروجہ سود سے ایک زائد چیز تھی اور پھر اتفاق کی بات کہ آنحضرت ﷺ ربا کے اس وسیع مفہوم کی تفصیلات پوری تشریح کے ساتھ بیان فرمانے سے پہلے اس دنیا سے تشریف لے گئے اسی وجہ سے اس کی تشریحات میں حضرت فاروق اعظم کو کچھ اشکالات پیش آئے بالآخر انہوں نے اپنے اجتہاد سے احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ربا کی جو صورتیں بالکل واضح اور متعین ہیں جیسی مروجہ سود یا اشیاء کے باہمی لین دین کی وہ صورتیں جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرما دی ہیں ان کو بھی ترک کردو اور ان سے مکمل اجتناب کرو اور جس چیز میں سود کا شبہ اور شائبہ بھی محسوس ہوجائے ازارہ ورع و احتیاط اسے بھی چھوڑ دو اور اس سے پرہیز کرو۔
Top