مشکوٰۃ المصابیح - جن بیوع سے منع کیا گیا ہے ان کا بیان - حدیث نمبر 2904
وعن حكيم بن حزام قال : نهاني رسول الله صلى الله عليه و سلم أن أبيع ما ليس عندي . رواه الترمذي في رواية له ولأبي داود والنسائي : قال : قلت : يا رسول الله يأتيني الرجل فيريد مني البيع وليس عندي فأبتاع له من السوق قال : لا تبع ما ليس عندك
جو چیز اپنے پاس نہ ہو اس کی بیع نہ کرو
حضرت حکیم بن حزام کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مجھے اس سے منع کیا کہ میں اس چیز کو نہ بیچوں جو میرے پاس نہیں (ترمذی) ترمذی ابوداؤد اور نسائی کی ایک روایت میں یوں ہے کہ حضرت حکیم کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے ایک ایسی چیز خریدنے کا ارادہ کرتا ہے جو میرے پاس نہیں ہوتی تو میں اس چیز کو بازار سے خرید لاتا ہوں یعنی میں اس چیز کا معاملہ اس سے کرلیتا ہوں پھر وہ چیز بازار سے خرید لاتا ہوں اور اس شخص کے حوالے کردیتا ہوں آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا کہ تم کسی ایسی چیز کو نہ بیچو جو تمہارے پاس نہیں ہے۔

تشریح
مطلب یہ ہے کہ جو چیز خریدو فروخت کا معاملہ کرتے وقت اپنی ملکیت میں نہ ہو اسے نہیں بیچنا چاہئے اب اس کی دو صورتیں ہوسکتی ہیں اول تو یہ کہ وہ چیز نہ تو اپنی ملکیت میں ہو اور نہ اپنے پاس موجود ہی ہو اس صورت میں تو اس چیز کی بیع صحیح ہی نہیں ہوگی دوم یہ کہ وہ اپنی ملکیت میں نہیں ہے ایک دوسرا شخص اس کا مالک ہے لیکن ہے اپنے ہی پاس اس صورت میں بھی مالک کی اجازت کے بغیر اس کی بیع نہیں کرنی چاہئے اور اگر مالک کی اجازت لینے سے پہلے ہی اس کی بیع کردی جائے گی تو حضرت امام ابوحنیفہ حضرت امام مالک اور حضرت امام احمد کے مسلک کے مطابق وہ بیع مالک کی منظوری پر موقوف رہے گی اگر منظوری دیدے گا تو صحیح ہوجائے گی نہیں تو کالعدم ہوجائے گی لیکن حضرت امام شافعی فرماتے ہیں کہ وہ بیع سرے سے صحیح ہی نہیں ہوگی مالک خواہ منظوری دے یا نہ دے۔ پہلی صورت کے حکم میں اس چیز کی بیع داخل ہے جس پر قبضہ حاصل نہ ہوا ہو یا وہ چیز گم ہوگئی ہو یا مفرور ہو جیسے غلام وغیرہ اور یا اس کو خریدار کے حوالے کرنے پر قادر نہ ہو جیسے ہوا میں اڑتا ہوا جانور اور وہ مچھلی جو ابھی پانی یعنی دریا وغیرہ سے نہ نکالی گئی ہو لیکن یہ بات ملحوظ رہے کہ یہ ممانعت بیع السلم کے علاوہ صورت میں ہے کیونکہ بیع السلم متعینہ و معروف شرائط کے ساتھ بالاتفاق تمام علماء کے نزدیک جائز ہے بیع السلم اور اس کی شرائط کا تفصیلی ذکر انشاء اللہ باب السلم میں کیا جائے گا۔
Top