مشکوٰۃ المصابیح - افلاس اور مہلت دینے کا بیان - حدیث نمبر 2933
وعن أبي سعيد قال : أصيب رجل في عهد النبي صلى الله عليه و سلم في ثمار ابتاعها فكثر دينه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم : تصدقوا عليه فتصدق الناس عليه فلم يبلغ ذلك وفاء دينه فقال رسول الله صلى الله عليه و سلم لغرمائه خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك . رواه مسلم
مفلس ہوجانے والے کی امداد کرنے کا حکم
اور حضرت ابوسعید کہتے ہیں کہ رسول کریم کے زمانے میں ایک شخص پھلوں کے سخت نقصان میں مبتلا ہوگیا جو اس نے خریدے تھے اور اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرضدار ہوگیا اس کی حالت دیکھ کر رسول کریم نے لوگوں سے فرمایا کہ صدقہ کے ذریعہ اس کی مدد کرو (تا کہ یہ قرض کے بوجھ سے ہلکا ہو) لوگوں نے صدقہ کے ذریعہ اس کی مدد کی مگر لوگوں کی مدد بھی اس کے قرض کی پوری ادائیگی کے لئے کافی نہ ہوسکی اس کے بعد آپ نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا کہ تمہیں اس سے جو کچھ بھی حاصل ہو بس وہ لے لو اس سے اس کے علاوہ اور کچھ تمہیں نہیں ملے گا۔

تشریح
اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ آنحضرت کے زمانے میں ایک شخص نے ایک پھل دار درخت خریدا اور درخت پر لگے ہوئے پھل ابھی اس کے تصرف میں نہیں آئے تھے سوء اتفاق سے ان پر آفت نازل ہوئی اور وہ سب جھڑ گئے ادھر اس نے اس کی قیمت بھی ادا نہیں کی تھی چناچہ جب بیچنے والے نے قیمت کا مطالبہ کیا تو اس نے لوگوں سے قرض لے کر وہ قیمت ادا کی اس کی وجہ سے وہ بہت زیادہ قرض دار ہوگیا۔ آنحضرت نے جب اس کی پریشان حالی دیکھی تو لوگوں کو اس کی طرف متوجہ کیا کہ وہ صدقہ و خیرات کے ذریعہ ہی اس کی مدد کریں تاکہ وہ قرض کے بار سے ہلکا ہوجائے۔ لوگوں نے اس کی مدد کی مگر ان کی مدد بھی اس کے قرض کی ادائیگی کے لئے کافی نہیں ہوسکی۔ لوگوں کی مدد سے جتنا قرض وہ ادا کرسکتا تھا اتنا ادا کردیا بقیہ قرض کی ادائیگی سے جب وہ بالکل ہیں عاجز ہوگیا تو آنحضرت نے قرض خواہوں سے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو حدیث کے آخر میں نقل کئے گئے ہیں۔ چنانچہ قرض خواہوں سے آنحضرت کے ارشاد کا مطلب یہ تھا کہ جب اس شخص کا افلاس بالکل ظاہر ہوگیا ہے اور اس کی خستہ حالی عیاں ہوچکی ہے تو اب تمہارے لئے یہ قطعًا مناسب نہیں ہے کہ تم اسے پریشان کرو اسے ڈراؤ دھمکاؤ یا اسے قید وبند کی مصیبت میں مبتلا کرو بلکہ اس صورت میں تم لوگوں پر واجب ہے کہ اسے مہلت دے دو جب دیکھو کہ اس کے پاس ادائیگی قرض کا کچھ سامان فراہم ہوگیا ہے اس وقت مطالبہ کرنا اور اس سے اپنا قرض واپس لے لینا آپ کے ارشاد کا یہ مطلب قطعًا نہیں تھا کہ قرضدار کے ذمہ سے قرض خواہوں کا حق ہی سرے سے ساقط ہوگیا ہے بلکہ جیسا کہ ابھی بتایا گیا اس سے آپ کا مقصد صرف یہ تھا کہ قرض دار کو مہلت مل جائے۔
Top