مشکوٰۃ المصابیح - افلاس اور مہلت دینے کا بیان - حدیث نمبر 2936
وعن أبي هريرة أن رجلا تقاضى رسول الله صلى الله عليه و سلم فأغلظ له فهم أصحابه فقال : دعوه فإن لصاحب الحق مقالا واشتروا له بعيرا فأعطوه إياه قالوا : لا نجد إلا أفضل من سنه قال : اشتروه فأعطوه إياه فإن خيركم أحسنكم قضاء
قرض خواہ تقاضہ کرسکتا ہے
اور حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے اس اونٹ کا تقاضہ کیا (جو آپ ﷺ نے اس سے بطور قرض لیا تھا) اور تقاضہ بھی بڑی سخت کلامی کے ساتھ کیا آپ ﷺ کے صحابہ نے جب اس کو اس سخت کلامی اور آداب نبوت کے خلاف اس کی حرکت پر سزا دینی چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسے کچھ نہ کہو کیونکہ جس کا حق ہے اسے کہنے کا اختیار ہے البتہ ایسا کرو کہ ایک اونٹ خرید کر اسے دیدو تاکہ اس کا مطالبہ ادا ہوجائے اور اسے پھر کچھ کہنے کا حق نہ رہے) صاحبہ نے عرض کیا کہ اس نے آپ ﷺ کو بطور قرض جو اونٹ دیا تھا اس کی عمر کا کوئی اونٹ نہیں مل رہا ہے بلکہ اس سے زیادہ عمر کا مل رہا ہے یعنی اس کا اونٹ چھوٹا اور کمتر تھا اور ہمیں جو اونٹ مل رہا ہے وہ اس کے اونٹ سے بڑا اور اچھا ہے آپ ﷺ نے فرمایا جو اونٹ تمہیں مل رہا ہے اسی کو خرید لو (اگرچہ وہ اس کے اونٹ کی بہ نسبت بڑا اور اچھا ہے) اور اسے دیدو یاد رکھو تم میں بہتر وہ شخص ہے جو قرض ادا کرنے میں اچھا ہو ( بخاری ومسلم)

تشریح
آپ ﷺ سے اپنے قرض کا تقاضہ کرنے والا اور پھر تقاضہ میں سخت کلامی کرنیوالا کوئی کافر رہا ہوگا خواہ وہ یہودی ہو یا کوئی اور بعض حضرات کہتے ہیں کہ شاید کوئی اجڈ گنوار و دیہاتی ہوگا جو مجلس نبوت اور مقام نبوت کے آداب سے مطلقًا بےبہرہ تھا جسے یہ سلیقہ بھی نہیں تھا کہ کس سے کس طرح بات کی جاتی ہے اس کے برعکس سرکار دو عالم ﷺ نے اس کی باتوں کو جس عالی ظرفی اور خوش اخلاقی کے ساتھ برداشت کیا وہ صرف نبوت ہی کا خاصہ ہوسکتا ہے۔ جس کا حق ہے اسے کہنے کا اختیار ہے، کے بارے میں ابن ملک فرماتے ہیں کہ یہاں حق سے مراد قرض ہے یعنی اگر کسی شخص کا کسی پر قرض ہو اور وہ قرض دار ادائیگی قرض میں تاخیر کرے تو قرض خواہ کو یہ حق پہنچتا ہے کہ اس سے سختی کے ساتھ تقاضہ کرے اس پر اظہار ناراضگی کرے اور اگر وہ پھر بھی قرض ادا نہ کرے تو حاکم و عدالت کی طرف رجوع کرے۔
Top