مشکوٰۃ المصابیح - افلاس اور مہلت دینے کا بیان - حدیث نمبر 2945
وعن البراء بن عازب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : صاحب الدين مأسور بدينه يشكو إلى ربه الوحدة يوم القيامة . رواه في شرح السنة
قرض دار کی روح قرض کی ادائیگی تک معلق رہتی ہے
اور حضرت براء بن عازب کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے محبوس کردیا جائے گا ( یعنی جنت میں داخل ہونے اور بندگان صالح کی صحبت میں پہنچنے سے روک دیا جائے گا) چناچہ وہ قیامت کے دن اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا (شرح السنۃ) منقول ہے کہ حضرت معاذ بن جبل قرض لیا کرتے تھے ایک مرتبہ ان کے قرض خواہ اپنے قرض کی وصولی کے سلسلے میں آنحضرت ﷺ کے پاس آئے تو آپ ﷺ نے معاذ کا سارا مال و اسباب ان کے قرض کی ادائیگی کے لئے بیچ ڈالا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ معاذ مفلس ہوگئے یہ حدیث مرسل ہے اور یہ الفاظ مصابیح کے نقل کردہ ہیں مشکوۃ کے مؤلف کہتے ہیں کہ) مجھے یہ روایت اصول یعنی صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں ملی ہے البتہ یہ روایت منتقی میں ملی ہے اور وہ بھی اس طرح ہے کہ حضرت عبدالرحمن بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ بن جبل ایک سخی جوان تھا اور اپنی سخاوت کی وجہ سے کوئی مال و اسباب اپنے پاس نہیں رکھتے تھے ( کیونکہ ان کے پاس جو کچھ بھی ہوتا تھا وہ سب دوسروں کو دیدیا کرتے تھے) اسی وجہ سے وہ ہمیشہ قرض لیتے رہتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے اپنا مال و اسباب قرض کی نذر کردیا۔ پھر وہ ایک دن آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس بات کی خواہش کی کہ آپ ﷺ ان کے قرض خواہوں سے سفارش کردیں کہ وہ سارا قرض یا قرض کا کچھ حصہ معاف کردیں) چناچہ آپ ﷺ نے ان کے قرض خواہوں سے اس سلسلے میں گفتگو کی مگر انہوں نے کچھ بھی معاف نہیں کیا اور اگر وہ کسی کا قرض معاف کرسکتے تو آنحضرت ﷺ کی وجہ سے معاذ کا قرض ضرور معاف کردیتے ( لہذا جب انہوں نے معاف کرنے سے صاف انکار کردیا تو آنحضرت ﷺ نے ان قرض خواہوں کے مطالبات پورے کرنے کے لئے معاذ کا سارا مال و اسباب بیچ دیا یہاں تک کہ اس کی وجہ سے معاذ مفلس ہوگئے سعید نے اس روایت کو اپنی سنن میں بطریق ارسال نقل کیا ہے ( شرح السنۃ)

تشریح
اپنے پروردگار سے اپنی تنہائی کی شکایت کرے گا کا مطلب یہ ہے کہ جب اس شخص کو نہ تو جنت میں داخل ہونے کی اجازت ملے گی اور نہ نیک بخت لوگوں کی صحبت میں اسے جانے دیا جائے گا اور اس طرح جب وہ یہ دیکھے گا کہ تمام ہی نیک بخت لوگ تو جنت میں جا رہے ہیں اور میں ایسا بدبخت ہوں کہ ان کی رفاقت و صحبت کی سعادت سے بھی محروم ہوں نیز اسے کوئی ایسا سفارشی بھی نظر نہیں آئیگا جو اسے اس قید تنہائی سے نجات دلائے تو وہ اپنی تنہائی اور اس قید کی وحشت سے مضطرب ہو کر بارگاہ الٰہی میں شکوہ کرے گا چناچہ جب تک وہ قرض کی وجہ سے چھٹکارا نہ پا جائے گا بایں طور کہ یا تو وہ اس قرض کے عوض میں اپنی نیکیاں قرض خواہوں کو دے دے یا قرض خواہوں کے گناہوں کو ان کے قرض کے عوض اپنے اوپر لاد لے یا اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اس کے قرض خواہوں کو راضی کر دے اور وہ اپنا حق معاف کردیں اس وقت تک وہ اسی تنہائی میں رہے گا گویا یہ تنہائی بھی اس کے لئے ایک عذاب کے درجے کی چیز ہوگی جس سے وہ سخت رنج واذیت محسوس کریگا۔ ایک روایت میں یوں منقول ہے کہ قرض دار اپنے قرض کی وجہ سے اپنی قبر میں قید کیا جائے گا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنی قید تنہائی کا شکوہ کریگا۔ اصول ان کتابوں کو کہتے ہیں جن میں حدیثیں سند کے ساتھ نقل کی گئی ہیں منتقی ابن تیمی کی ایک کتاب کا نام ہے لہذا مشکوۃ کے مؤلف روایت کے الفاظ لم اجد الخ کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ مصابیح کے مصنف نے یہ روایت وروی ان معاذا کان الخ جن الفاظ میں نقل کی ہے ان الفاظ کے ساتھ یہ روایت مجھے اصول کی کتابوں میں نہیں ملی ہے بلکہ یہ روایت منتقی میں منقول ہے اور وہ بھی ان الفاظ میں وعن عبدالرحمن الخ۔ علامہ طیبی فرماتے ہیں کہ یہ الفاظ منتقی کے ہیں اور ان کو یہاں مؤلف مشکوۃ نے اس لئے نقل کیا ہے تاکہ یہ معلوم ہوجائے کہ یہ حدیث اگرچہ اصول کی ان کتابوں میں نہیں ہے جنہیں مؤلف نے دیکھا ہے لیکن منتقی میں موجود ہے لہذا یہ روایت اگر اصول کی کتابوں میں نہ ہوتی تو صاحب منتقی اس کو اپنی کتاب میں نقل نہ کرتے
Top